021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ناقص تعمیرکا ذمہ انچارج یا ٹھیکہ دار؟
76469اجارہ یعنی کرایہ داری اور ملازمت کے احکام و مسائلدلال اور ایجنٹ کے احکام

سوال

کیا فرماتے ہیں علماءِ کرام و مفتیان عظام مندرجہ ذیل صورتوں کے متعلق شرع شریف کی روشنی میں:ایک ہسپتال جو کہ ایک دینی ادارے(مدرسہ) کا شعبہ ہے، مدرسہ کا مہتمم ہی ہسپتال کا چیئرمین(سربراہ) ہے۔ ہسپتال کا تعمیراتی کام ابتداء سے ان کی نگرانی میں ہو رہا ہے۔ اب حال ہی میں ضرورت کی بنا پر پہلی منزل کی چھت پر بھرائی کا کام چلا جس کا نقشہ اور بھرائی وغیرہ کا سارا کام انجنیئر صاحب کے کہنے کے مطابق ہوا جس کو چیئرمین صاحب نے تعینات کیا ہے۔ چھت کی بھرائی سے قبل جس دن لوہا(سریا) کا جال بچھایا گیا تھا اس دن انجنیئر صاحب کو بلایا تھا مگر انجنیئر صاحب کی طبیعت درست نہ ہونے کی وجہ سے وہ نہ آسکے۔ میں نے سریہ کی جال کی مکمل وڈیو بنا کر انجنیئر کو بھیجی،انہوں نے جواب دیا کہ بالکل درست ہے آپ بھرائی کرادیں،چنانچہ میں نے بھرائی شروع کروادی، کچھ مہینوں کے بعد چیئرمین صاحب کے کان میں یہ بات ڈالی کہ بھرائی درست نہیں ہوئی ہے، اب انہوں نے انجنیئر صاحب کو بتایا جس پر اس نے اپنے بیٹے کو (وہ بھی انجنیئر ہے) بھیجا،اس نے معا ئنہ کرکے بتایا کہ تقریباَ ۳۰ فیصد کام درست نہیں ہوا ہے، اگر بالفرض کام میں کچھ نقص ہے تو یہ مکمل ٹھیکیدار کی ذمہ داری ہے، اب چیئرمین صاحب اس کا ذمہ دار مجھے ٹھہراتے ہیں، حالانکہ میں ہسپتال کا بطور انچارج ہوں اور میں نے چیئرمین صاحب کو کہا کہ اس کا ذمہ دار ٹھیکیدار ہے،لہذا اس کا نقصان ٹھیکیدار سے لیں تو چیئرمین صاحب مجھے فرماتے ہیں کہ ہمارے کام ٹھیکیدار سے پڑتے رہتے ہیں اس لیے نقصان تمہیں بطورانچارج بھرنا ہوگا، حالانکہ بھرائی صحیح ہوئی ہے، چنانچہ کرش کی سائز موٹی تھی جس کی وجہ سے چھت کی درمیان میں چھوٹے چھوٹے خال رہ گئے ہیں، سوال یہ ہے کہ کیا شرعی طور پر (بطور انچارج) میں اس نقصان کا ذمہ دار ہوں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

ٹھیکہ دار چونکہ اجیرمشترک ہے کہ اجرت اس کے عمل سے وابستہ ہے،جس کا حکم یہ ہے کہ بھرائی  چونکہ ٹھیکہ دار نے کی ہے، اس لیے اس نقصان  کا ذمہ دار ٹھیکہ دار ہے۔

حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 66)
(و) يضمن (ما هلك بعمله كتخريق الثوب من دقه وزلق الحمال وغرق السفينة) من مده جاوز المعتاد أم لا بخلاف الحجام
 (قوله ويضمن ما هلك بعمله) أي من غير قصد في قول علمائنا الثلاثة، ولا يستحق الأجرة؛ لأنه ما أوفى بالمنفعة بل بالمضرة. بدائع، وعمل أجيره مضاف إليه فيضمنه وإن لم يضمن الأجير؛ لأنه أجير وحد له ما لم يتعد كما سيذكره آخر الباب. (قوله من دقه) أي بنفسه أو بأجيره، فلو استعان برب الثوب فتخرق ولم يعلم أنه من أي دق فعلى قول الإمام ينبغي عدم الضمان للشك، وعن الثاني يضمن نصف النقصان كما لو تمسك به لاستيفاء الأجر فجذبه صاحبه فتخرق حموي عن الظهيرية ملخصا.
قال في التبيين: ثم صاحب الثوب إن شاء ضمنه غير معمول ولم يعطه الأجر، وإن شاء ضمنه معمولا وأعطاه الأجر ط ملخصا 

نواب الدین

دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

۱۹شعبان۱۴۴۳ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

نواب الدین صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب