021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بیوی سےطلاق سےمتعلق سوال کرنے کاارادہ تھا،لیکن طلاق کےلفظ کےبعدبیوی نےروک دیا
76433طلاق کے احکامطلاق کے متفرق مسائل

سوال

سوال: بخدمت جناب مفتی صاحب

بروز اتوار 06/03/22 کو سہ پہر تقریبا 3 بجے کے وقت میں اپنی اہلیہ سے گھر کے خرچے کے سلسلے میں تکرار ہو رہی تھی میں ظہر کی نماز کے لیے کھڑا ہو رہا تھا  وہ مستقل بولی جا رہی تھی میں نے اسے چپ کرانے کے لیے اپنی شہادت کی انگلی سر سے نیچے کندھے تک لا کر سوالیہ طور پرپوچھا ہی تھا کہ طلاق دوں تو تم خاموش ہوگی؟ لیکن میرے لفظ طلاق بولنے کے فورا بعد اس نے نہیں نہیں زور سے بول کر میرا جملہ پورا نہ ہونے دیا اور اس طرح یہ لفظ خالی رہ گیا بالکل اس طرح جس طرح ہم بچے کو ڈانتے ہیں کہ چپ ہونا ہے یا ماروں؟ تو وہ بولتا ہے کہ نہیں میں چپ ہو رہا ہوں پھر میں نے اہلیہ سے کہا کہ اب آواز نہ نکلے اور میں نے نماز کی نیت باندھ لی۔  میں  حلفیہ یہ اقرار کرتا ہوں کہ میرا مقصد اس سے صرف یہ پوچھنا تھا کہ کیا تم اس طرح خاموش ہوگی

اور اس بات کی اہلیہ بھی گواہی دے گی کیونکہ وہ بھی یہی سمجھ کر نہیں نہیں بولی تھی  اور نہیں نہیں کا لفظ برابر والے کمرے میں بیٹھی میری بڑی بیٹی جو کہ تقریبا 23 سال کی تھی اس نے بھی سنا تھا اور وہ بھی یہی گواہی دیتی ہے کہ میرا لہجہ سوالیہ تھا ،فیصلہ کن ہرگز نہیں تھا۔

میرا سوال یہ ہے کہ لفظ طلاق اکیلے رہ گیا تھا ،اس لیے ہمیں تشویش ہوئی کہ کوئی مسئلہ تو نہیں ہو گیا۔ہم دونوں میاں بیوی اور بچے بہت پریشان  ہیں، ہمیں  نجات دلائیں۔

نوٹ: چونکہ ہماری دو طلاقیں ہو چکیں ہیں اسی لیے ہم بہت زیادہ پریشان ہیں جن کی تفصیل درج ذیل ہے۔

1- آج سے 16 یا 17 سال پہلے میں نے اپنی اہلیہ سے کہا تھا کہ اگر تمہارے گھر سے کوئی آیا تو تم میری طرف سے فارغ یہ بات اس نے اپنے گھر والوں کو نہیں بتائی تھی اور میرے والد کے بیمار ہونے پر ان کے گھر سے میرے ساس سسر ابو کو دیکھنے آگئے تھے  جس پر ہم نے رجوع کیا تھا۔

2- سسرال سے واپسی پر اپنے سالے کے رویے کی وجہ سے میں نے اپنی اہلیہ پر اس گھر میں داخلے پر یہی شرط لگائی تھی جس کی وجہ سے وہ کئی سال تک اپنے میکے نہیں گئی پھر بڑوں کی مشاورت سے وہ اپنے گھر گئی اور پھر ہم نے رجوع کیا تھا۔

تنقیح:سائل نےوضاحت کی ہےکہ پہلےدونوں دفعہ باقاعدہ تجدید نکاح ہواتھا،استفتاء میں اسی نکاح کورجوع  لکھاہے۔

 

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورت مسئولہ میں مذکورہ جملہ میں دواحتمال ہیں اگراستفہام کامعنی لیاجائےتویہ سوالیہ جملہ ہوگا،طلاق کاسوال کرنےسےطلاق واقع نہیں ہوتی تواس صورت میں  طلاق واقع نہ ہوگی۔

اور اگراستفہام کامعنی  مراد نہ لیاجائےتواس صورت میں چونکہ یہ مستقبل کاجملہ بنےگا،اورمستقبل کےجملہ سےبھی طلاق واقع نہیں ہوتی ،اس لیےاس صورت میں  بھی طلاق واقع نہ ہوگی۔

دونوں معنی میں سےشوہرنےجومعنی مرادلیاہے،اس پرلازم ہوگاکہ اپنی بات پرقسم کھالےتوطلاق واقع نہ ہوگی، قسم کےبعد بیوی کےلیےبھی شوہر کی اس نیت کی تصدیق کرنادرست ہوگا۔

چونکہ شوہرپہلےدوطلاق دےچکاہے،اس لیےاب دوبارہ طلاق کےالفاظ استعمال کرنےمیں حددرجہ احتیاط کرناضروری ہے،کہیں ایسانہ ہوکہ تین طلاق واقع ہوجائیں پھردوبارہ بغیرحلالہ کےدوبارہ نکاح بھی نہ ہوسکےگا۔

حوالہ جات
"حاشية رد المحتار" 3 / 275:
مطلب في قول البحر: إن الصريح يحتاج في وقوعه ديانة إلى النية قوله: (أو لم ينو شيئا) لما مر أن الصريح لا يحتاج إلى النية، ولكن لا بد في وقوعه قضاء وديانة من قصد إضافة لفظ الطلاق إليها عالما بمعناه ولم يصرفه إلى ما يحتمله، كما أفاده في الفتح وحققه في النهر، احترازا عما لو كرر مسائل الطلاق بحضرتها، أو كتب ناقلا من كتاب امرأتي طالق مع التلفظ، أو حكى يمين غيره فإنه لا يقع أصلا ما لم يقصد زوجته۔۔
"الدر المختار للحصفكي" 3 / 330:والقول له بيمينه في عدم النية۔
"البحر الرائق شرح كنز الدقائق" 9 / 372:وفي كل موضع يصدق الزوج على نفي النية إنما يصدق مع اليمين لأنه أمين في الإخبار عما في ضميره ، والقول قول الأمين مع اليمين ۔

محمدبن عبدالرحیم

دارالافتاءجامعۃالرشیدکراچی

23/شعبان   1443 ھج

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمّد بن حضرت استاذ صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب