021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
دیگر ورثہ کی اجازت کے بغیر مکان کو بیچنا
77098میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

محترم مفتی صاحب!

گزارش یہ ہے کہ میری والدہ محترمہ کا تعلق سادات خاندان سے ہے اور میرے والد یوسف زئی قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں، میرے والد صاحب کا انتقال فروری 2001 کو ہوا، ہم 5 بھائی اور 3 بہنیں ہیں  بھائیوں کے نام یہ ہیں:مسرور،کامران،عدنان،عمران،اور فرحان اور بہنوں کے نام: سلمہ،ماہ جبین،سعدیہ جن میں سے چار بھائی شادی شدہ ہیں اور بڑی بہن شادی شدہ ہیں، والد محترم نے میراث میں ایک مکان اور ایک گاڑی چھوڑا ہے، مکان ڈبل منزلہ ہے جوکہ 120 گز پر مشتمل ہے جس کے اوپر والی منزل میں میں دو بہنیں اور ایک بھائی والدہ محترمہ کے ساتھ رہتے ہیں جبکہ نیچے والے پورشن میں مسرور بھائی کی اہلیہ کا جہیز کا سامان رکھا ہوا ہےاور گاڑی ایک بھائی عدنان کے پاس ہوتی ہے جو ان کے زیر استعمال ہے۔

اب گھر کی صورتحال کچھ ایسی ہے کہ اس وقت چاروں بھائی برسر روزگار ہیں، بڑے بھائی نے ایک عرصے تک گھر کے اخراجات سنبھالے پھر 2017 کے بعد انہوں نے بالکل خرچہ دینا چھوڑ دیا، باقی بھائی اسی طرح گھر میں امی اور بہنوں کا بالکل پوچھ گچھ نہیں کرتے ہیں اور خرچہ بھی نہیں دیتے ہیں، امی ہر وقت بیمار رہتی ہے، ان کو علاج کیلئے پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے اور گھر میں راشن وغیرہ بھی چاہئے ہوتی ہے، اس لئے ہم ہر وقت پریشان رہتے ہیں، اور دوسرے لوگوں سے مدد مانگتے ہیں ،کبھی بندوبست ہوجاتا ہے اور کبھی ایسے ہی گزاراہ کرتے ہیں۔

گھر کے اخراجات کے بندوبست کیلئے امی کہتی ہے کہ نیچے والے پورشن کو کرائے پر دیں ، لیکن مسرور بھائی کی اہلیہ اپنے جہیز کے سامان کی وجہ ایسا کرنے سے منع کرتی ہے، اب امی کا یہ کہنا ہے کہ اس مکان کو جو ان کے اپنے نام پر رجسٹرڈ ہے، والد صاحب کے انتقال کے بعد ہم سب بہن بھائیوں نے ملکر ان کے نام کیا تھا اس مکان کو بیچ کر ایک چھوٹا سا گھر لیتے ہیں اور بقیہ پیسوں سے اپنا گزر بسر کرتے ہیں، لیکن امی ایسا کرنے سے پریشان ہوتی ہے کہ ایسا کرنے سے  بچوں کو وراثت میں سے حصہ کیسے ملے گا؟ اب میں مفتی صاحب آپ سے پوچھنا چاہتی ہوں کہ کیا امی کیلئے ایسا کرنا جائز ہے جبکہ چاروں بھائی والدہ کو بالکل نہیں پوچھتے ہیں، ہم کافی سارے مسائل کا شکار ہیں اس لئے مجبورا ہم گھر بیچنا چاہتے ہیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

       1۔ شریعت میں صرف زمین کے کاغذات کسی کے نام کرنے سے ملکیت ثابت نہیں ہوتی، بلکہ نام کرنے کے بعد یہ بھی ضروری ہے کہ زمین جس کے نام کی گئی ہے، اس کو مکمل قبضہ بھی دے دیا جائے،اور ہر قسم کے مالکانہ حقوق بھی منتقل کردیئے جائیں، اور دینے والا اپنا تصرف اس مکان سے مکمل ختم کردے۔

لہذا اگر تمام ورثہ بالغ ہیں اور سب نے اپنی رضامندی سے مذکورہ مکان شرائط کے مطابق والدہ کو مالک بناکر ان کے نام کردیا تھا اور ان کو مکمل قبضہ بھی دیدیا تھا،تو یہ مکان والدہ کی ملکیت شمار ہوگی اور والد صاحب کے ترکہ میں اسے شمار نہیں کیا جائے گا، اور اگر صرف  نام پر سرکاری کھاتوں میں رجسٹرڈ کرایا تھا مگر مکان پر قبضہ اور مالکانہ حقوق ان کی طرف منتقل  نہیں کئے گئے تھے، تو یہ مکان والد صاحب کے ترکہ میں شمار ہوگا جس میں آپ تمام بہن بھائی والدہ سمیت اپنے شرعی حصص کے مطابق شریک ہوں گے اور یہ مکان والدہ کی علیحدہ ملکیت شمار نہیں ہوگی۔

      2۔ والد صاحب کے انتقال کے بعد ان کے ترکہ میں جو کچھ ہے، اس میں تمام ورثاء کا حق ہے خواہ وہ غریب ہوں یا امیر ، گھر  کے اخراجات کی ادائیگی کررہے ہوں یا نہ کررہے ہوں بہر صورت کسی بھی شرعی عذر کے بغیر انہیں میراث میں سے بے دخل نہیں کیا جاسکتا، اس لئے اوپر ذکرکردہ مکان کو بیچنے سے پہلے تمام ورثاء کی رضامندی حاصل کی جائے، آیا وہ مکان کو بیچنا چاہتے ہیں یا اس کو اسی طرح برقرار رکھ کر اس سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں، اگر تمام ورثاءمکان کے بیچنے پر رضامند ہوں تو مکان کو بیچ کر اس کی قیمت تمام ورثاء کے درمیان ان کے حصص کے مطابق تقسیم کی جائے۔

ذیل میں والد مرحوم کے ترکہ کا تقسیم کا طریق کار ملاحظہ فرمائیں:

والد صاحب مرحوم نے بوقت انتقال اپنی ملکیت میں جو کچھ منقولہ وغیر منقولہ مال وجائیداد،مکان، گاڑی، دکان،نقد رقم،سونا چاندی،زیورات غرض ہر قسم کا چھوٹا بڑا گھریلوسازوسامان چھوڑا ہے وہ سب مرحوم کا ترکہ ہے۔ اس میں سے سب سے پہلے مرحوم کے کفن دفن کے مسنون اخراجات ادا کیے جائیں، اگر یہ اخراجات کسی نے احسان کے طور پر ادا کردیے ہوں،تو ان کے ترکے سے یہ اخراجات نہیں نکالے جائیں گے۔ پھر اگر مرحوم کے ذمہ کوئی قرض ہو تو وہ ان کے ترکے سے ادا کریں۔ اس کے بعد دیکھیں کہ اگر انہوں نے کوئی جائز وصیت کسی غیر وارث کے حق میں کی ہو تو بقیہ ترکہ میں سے ایک تہائی کی حد تک اس پر عمل کریں، اس کے بعد مرحوم کے کل ترکہ منقولی وغیر منقولی کو104 حصوں میں تقسیم کیا جائے، جس میں سے 13 حصے ان کی اہلیہ محترمہ کو،14 حصے ان کے ہر بیٹے کو اور 7 حصے ہر بیٹی کو دیا جائے۔

فیصدی اعتبار سے تقسیم یوں ہوگی کہ بیوہ کو 12.5%فیصد،ہر بیٹے کو 13.4615%فیصد اور ہر بیٹی کو 6.7307%فیصد                 دیا جائے۔

فیصدی حصے

عددی حصے

ورثہ

نمبر شمار

13.4615%

14

        مسرور مرحوم کا بیٹا

   1                                        

13.4615%

14

مرحوم کا بیٹا کامران  

          2

13.4615%

14

مرحوم کا بیٹا عدنان

  3

13.4615%

14

مرحوم کا بیٹاعمران  

   4

13.4615%

     14

مرحوم کا بیٹافرحان

5  

6.7307%

7

مرحوم کی بیٹی سلمہ

 

6.7307%

7

مرحوم کی بیٹی ماہ جبین

7

6.7307%

7

مرحوم کی بیٹی سعدیہ

8

12.5%

13

بیوہ

9

100%

104

مجموعہ

 

حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 690)
(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل (ولو الموهوب شاغلا لملك الواهب لا مشغولا به) والأصل أن الموهوب إن مشغولا بملك الواهب منع تمامها، وإن شاغلا لا.

محمدنصیر

دارالافتاء،جامعۃ الرشیدکراچی

٠٩ذی القعده ١٤٤٣ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نصیر ولد عبد الرؤوف

مفتیان

محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب