021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
شوہرنہ نفقہ دیتاہے،نہ طلاق پرراضی  ہےنہ خلع پراور عدالت میں بھی نہیں آتاتوکیاحکم ہوگا؟
77075طلاق کے احکامخلع اور اس کے احکام

سوال

سوال:  السلام علیکم ورحمةاللہ وبرکاتہ!میری ہمشیرہ 1.5سال سے گھر ہیں اور اس کے شوہر نے کوئی فون تک نہیں کیا ملنا تو دورکی بات اور نہ کوئی خرچہ دیا اور وہ نہ طلاق دیتا ہے ہم نے عدالت کی طرف سے نوٹس بھجے لیکن وہ نہیں آیا تین پیشی کے بعد عدالت نے نکاح والے گواہ بلواکر خلع  دے دیااب طلاق ہو گئی یا نہیں؟کیو نکہ ہمشیرہ کب تک گھر بیٹھے گی اورعدت کتنی ہوگی؟ اسکا فتوی  مل جائے تو مہربانی ہوگی۔

 

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورت مسئولہ میں منسلکہ عدالتی خلع کافیصلہ شرعامعتبرنہیں،کیونکہ یہ فیصلہ بظاہریک طرفہ معلوم ہوتاہے، عدالتی خلع کےشرعامعتبرہونےکےلیےضروری ہےکہ شوہر خلع پرراضی ہو،جب کہ یہاں توشوہرطلاق اورخلع پرتیارنہیں،عدالت بھی حاضرنہیں ہوا،اس لیےصرف بیوی کی طرف سےیک طرفہ عدالتی خلع معتبرنہیں ہوگا۔

ہاں موجودہ صورت میں چونکہ  شوہرنفقہ وغیرہ نہیں دیتا،نہ ہی کسی کونفقہ کاوکیل بنایاہےتوشرعااسباب فسخ نکاح میں سے تعنت فی النفقہ(گنجائش کےباوجودخرچہ وغیرہ نہ دینے)کاسبب پایاجاتاہے،اس لیےمذکورہ سبب کی وجہ سےبیوی کواختیارہےکہ عدالت کےذریعہ فسخ نکاح  کروالے۔

لیکن اس کےلیےضروری ہوگاکہ شرعی طریقہ کارکےمطابق نکاح فسخ کروایاجائے،تفریق  کاطریقہ یہ ہےکہ عورت عدالت میں جاکراپنےدعوی پرشرعی گواہ پیش کرے،اورعدالت بھی شرعی طریقےکےمطابق گواہوں کےذریعہ معاملہ کی تحقیق وتصدیق کرے،اگر عورت کادعوی صحیح ثابت ہوکہ  شوہرباوجودوسعت کے خرچ نہیں دیتا توشوہر سے کہاجاوے کہ اپنی بیوی  کے حقوق اداکرویاطلاق دیدو،ورنہ عدالت تفریق کرنے کی مجاز ہوگی ،اس کے بعد بھی اگر وہ کسی صورت پرعمل نہ کرےاورعدالت سمجھےکہ واقعتاًزیادتی ہورہی ہےاورشوہرمتعنت فی النفقہ بھی ہے)توعدالت اس نکاح کوفسخ کرسکتی ہے،یہ فسخ طلاق بائن کےحکم میں ہوگا۔اس کےبعدعورت عدت(تین ماہواریاں)گزارکردوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے۔(ماخوذاز الحیلۃ  الناجزہ ص74،73﴾

اوراگرعدالت کےچکرلگانامشکل ہوں اوریہ گمان ہوکہ عدالت میں فیصلہ میں تاخیرہوگی،جیساکہ آج کل عدالتوں  کی صورت حال ہےتوپھراس کاآسان طریقہ یہ ہےکہ عورت جماعۃ المسلمین(علماء ومفیتان کرام کی جماعت)کےسامنےدوگواہوں کی موجودگی میں اپنادعوی ثابت کرےاوریہ جماعت گواہوں کےذریعہ پورےمعاملےکی اچھی طرح تحقیق کرے،پھراگریہ جماعت شرعی طریقےکےمطابق  فسخ نکاح کافیصلہ  کردےتوبھی یہ فیصلہ شرعامعتبرہوگا۔

درج بالاکسی بھی طریقےسےفسخ نکاح ہوجاتاہےتویہ طلاق بائن کےحکم میں ہوگا۔اس کےبعد عورت عدت گزارکردوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے۔

حوالہ جات
"فتاوی عثمانی "2/462 :"الموسوعة الکویتیة" 29/  54:
الطلاق:نوع من انواع الفرقة وھوملک للزوج وحدہ ،ذالک ان الرجل یملک مفارقة زوجتہ اذاوجد مایدعوہ الی ذالک بعبارتہ وارادتہ المنفردة ،کماتملک الزوجة طلب انھاء علاقتھاالزوجیة اذاوجد مایبررذالک،کاعسارالزوج بالنفقة،وغیبة الزوج،وماالی ذالک من اسباب اختلف الفقہاءفیھاتوسعةوتضییقا۔ولکن ذالک لایکون بعبارتھاوانما بقضاء القاضی  الاان یفوضھا الزوج بالطلاق فانھافی ھذہ الحالۃ تملکہ بقولھاایضا۔
وذھب المالکیة الی اٴن واجب الحکمین الاصلاح اولا،فان عجز اعنہ لتحکمالشقاق کان لھماالتفریق بین الزوجین دون توکیل ،ووجب علی القاضی ،امضاء حکمھمابھذالتفریق ،اذااتفقاعلیہ وان لم یصادف ذالک اجتھادہ ۔
"ردالمحتارعلی الدرالمختار" 3/444 :وحکمہ ان)الواقع بہ(ولوبلامال)وبالطلاق الصریح)علی مال طلاق بائن(وثمرتہ فیمالوبطل البدل  کماسیجیء۔
"المبسوط" 8 /  311:"قال اللہ تعالی فی سورۃ البقرۃ( آیت: 227)وإن عزموا الطلاق فإن الله سميع عليم وهو إشارة إلى أن عزيمة الطلاق بما هو مسموع وذلك بإيقاع الطلاق أو تفريق القاضي ، والمعنى فيه أن التفريق بينهما لدفع الضرر عنها عند فوت الإمساك بالمعروف ، فلا يقع إلا بتفريق القاضي كفرقة العنين ، فإن بعد مضي المدة هناك لا تقع الفرقة إلا بتفريق القاضي بل أولى ؛ لأن الزوج هناك معذور وهنا هو ظالم متعنت ، والقاضي منصوب لإزالة الظلم فيأمره أن يوفيها حقها ، أو يفارقها ، فإن أبي ناب عنه في إيقاع الطلاق وهو نظير التفريق بسبب العجز عن النفقة ۔

محمدبن عبدالرحیم

دارالافتاءجامعۃالرشیدکراچی

 /11ذیقعدہ  1443 ھج

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمّد بن حضرت استاذ صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب