021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بیوہ اور شوہر کے اولاد کے درمیان میراث کی تقسیم کا طریقہ کار
77077میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

محترم مفتی صاحب

میرے بہنوئی کا انتقال ہوگیا تھا، سن 2012 میں انہوں نے اپنی بیوی کو طلاق دے کر میری بہن سے نکاح کیا تھا، اور میری بہن کا پہلے والے شوہر سے ایک بیٹی ہے، جبکہ میرے بہنوئی کے پہلی بیوی سے پانچ بچے ہیں جن میں ایک بیٹا اور چار بیٹیاں ہیں لیکن اس شوہر سے میری بہن کی  کوئی اولاد نہیں ہے، میرے بہنوئی کے ایک بڑے بھائی بھی ہیں، بہنوئی کے جائیداد میں ایک مکان اور کچھ رقم ہے۔

میری بہن گورنمنٹ اسکول  میں استاد ہیں، بہن اور بہنوئی دونوں نے مل کر گھر کا سامان خریدا تھا، جبکہ فرنیچر میری بہن کے جہیز کا تھا۔

مہربانی فرماکر یہ بتائیں میراث کیسے تقسیم ہوگی!

1۔ بہنوئی کی ملکیت کی تقسیم کس حساب سے ہوگی؟

2۔ مشترکہ ملکیت اور گھریلو سامان کی کیا حیثیت ہوگی۔

 

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

1۔مذکورہ صورت میں مرحوم بہنوئی نے بوقت انتقال اپنی ملکیت میں جو کچھ منقولہ وغیر منقولہ مال وجائیداد،مکان، گاڑی، دکان،نقد رقم،سونا چاندی،زیورات غرض ہر قسم کا چھوٹا بڑا گھریلوسازوسامان چھوڑا ہے وہ سب مرحوم کا ترکہ ہے۔ اس میں سے سب سے پہلے مرحوم کے کفن دفن کے مسنون اخراجات ادا کیے جائیں، اگر یہ اخراجات کسی نے احسان کے طور پر ادا کردیے ہوں،تو ان کے ترکے سے یہ اخراجات نہیں نکالے جائیں گے۔ پھر اگر مرحوم کے ذمہ کوئی قرض ہو تو وہ ان کے ترکے سے ادا کریں۔ اس کے بعد دیکھیں کہ اگر انہوں نے کوئی جائز وصیت کسی غیر وارث کے حق میں کی ہو تو بقیہ ترکہ میں سے ایک تہائی کی حد تک اس پر عمل کریں، اس کے بعد مرحوم کے کل ترکہ منقولی وغیر منقولی کو 48 حصوں میں تقسیم کیا جائے، جس میں سے 6 حصے ان کی بیوہ کو،14 حصے ان کے بیٹے کو اور ہر بیٹی کو سات سات حصے دیئے جائیں۔

فیصدی اعتبار سے تقسیم یوں ہوگی کہ بیوہ کو 12.5% فیصد، بیٹے کو 29.1666% فیصد ہر بیٹی کو14.5833  فیصد دیا جائے۔

واضح رہے کہ مرحوم کے ترکہ میں سے ان کےبھائی اور ان کے طلاق یافتہ خاتون کو کچھ نہیں ملے گا، اسی طرح اس کی بیوی کے پہلے شوہر سے بیٹی کو بھی کچھ نہیں ملے گا۔

2۔شادی کے موقع پر لڑکی کو جواشیاء جہیز کے طور پر دی جاتی ہیں وہ عموما والدین کی طرف سے ہدیہ ہوتی ہیں، بنابریں  اگر صورت مسؤلہ میں  آپ کے والدین نے آپ کی بہن کو فرنیچر اور دیگر سامان جہیز کے طور پر ہدیہ کیاتھا، تو وہ بدستور آپ کی بہن کی ملکیت میں رہے گا، شوہر کے ترکہ میں ان کا شمار نہیں ہوگا۔

باقی جو سامان میاں بیوی دونوں نے ملکر خریداتھا، چنانچہ اگر سامان کی خریداری کے وقت بیوی نے  بطور قرض ان کو یہ پیسے دیئے تھے تو وہ میاں مرحوم کے ترکہ میں سے سب سے پہلے اپنا قرض وصول کرسکتی ہے اور اگر ہدیہ کے طور پر دیئے تھے تو اس صورت میں یہ پیسے شوہر کی ملکیت تصور ہوں گی اور بیوی کو یہ پیسے واپس لینے کا اختیار نہیں ،تیسری صورت جو عام اور معروف ہے کہ بیوی نے شوہر کو پیسے دیتے وقت کوئی حیثیت متعین نہ کی ہو تو ایسے میں عرف کی وجہ سے  گھر کا سامان میاں بیوی دونوں کے درمیان مشترک ہوگا،اور یہ سامان ہر ایک کے لگائے گئے پیسوں کے تناسب سے تقسیم ہوگا، سامان میں سے بیوی کا حصہ نکالنے کے بعد جو باقی  بچے وہ تمام ورثہ کے درمیان(بیوہ سمیت) ان کے ذکر کردہ حصص کے تناسب سے تقسیم ہوگا۔

حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 585)
فإن كل أحد يعلم أن الجهاز ملك المرأة وأنه إذا طلقها تأخذه كله، وإذا ماتت يورث عنها ولا يختص بشيء منه.

محمدنصیر

دارالافتاء،جامعۃ الرشیدکراچی

٠٩ذی القعده ١٤٤٣ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نصیر ولد عبد الرؤوف

مفتیان

محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب