021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
دو مختلف دوائیاں دینے سے مریض کا انتقال ہو تو ڈاکٹر پر ضمان کا حکم
77164غصب اورضمان”Liability” کے مسائل متفرّق مسائل

سوال

ایک ڈاکٹر (Nephrologist) ہیں، جو کہ بہت محنتی اور قابل ہیں۔ اس نے ایک مریض کو ایک دوا (Azothiaprin) تجویز کی۔ تھوڑی دیر بعد اس مریض کا بھائی آیا اور کہا کہ میرا بھائی ایک اور دوائی (Febuxostat) بھی استعمال کرتا ہے تو ڈاکٹر صاحب نے وہ بھی لکھ دی۔ جبکہ  (Febuxostat)  دوسری دوا  (Azothiaprin)  کی toxicity کرواتی ہے (یعنی اس کو مہلک بنادیتی ہے)  یہ بات اس ڈاکٹر صاحب کو Azothiaprin تجویز کرتے وقت یاد نہیں رہی۔  وہ مریض دوائیں کھانے کے بعد toxicity کے ساتھ ہسپتال آیا، اور مکمل کوششوں کے باوجود وفات پاگیا۔

اب سوال یہ ہے کہ اس ساری صورتِ حال کا اس مریض کے لواحقین کو بتانا ضروری ہے ؟ اور ڈاکٹر صاحب پر دیت یا کچھ تو نہیں آتا ؟  

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورتِ مسئولہ میں مرحوم کے لواحقین کو یہ تفصیل بتانے یا نہ بتانے کا فیصلہ خود سوچ کر حکمت اور مصلحت کے مطابق کیا جاسکتا ہے۔ البتہ بتانے کا ایک فائدہ یہ ہے کہ وہ ان دونوں دوائیوں کے ایک ساتھ استعمال کے نقصان سے واقف ہوجائیں گے، اور آئندہ کے لیے احتیاط کریں گے۔   

ڈاکٹر صاحب پر شرعًا ضمان یا دیت لازم نہیں۔ البتہ یہ دونوں دوائیاں ایک ساتھ دینے میں ان سے جو غفلت اور کوتاہی ہوئی ہے، اس پر توبہ و استغفار، اور آئندہ مریضوں کو دوا دیتے وقت بیدار مغزی سے کام لینا ضروری ہے۔ نیز اگر اس حوالے سے کوئی جائز ملکی قانون ہو، اور مرحوم مریض کے لواحقین قانون کی طرف رجوع کریں تو ان کو اس کا حق ہوگا۔

حوالہ جات
سنن أبى داود (4/ 321):
  حدثنا محمد بن العلاء حدثنا حفص حدثنا عبد العزيز بن عمر بن عبد العزيز حدثنى  بعض الوفد الذين قدموا على أبى قال: قال: رسول الله ﷺ  « أيما طبيب تطبب على  قوم لا يعرف له
تطبب قبل ذلك فأَعنَتَ فهو ضامن ».
قال عبد العزيز: أما إنه ليس بالنعت، إنما هو قطع العروق، والبط، والكى.
بذل المجهود (18/107-106):
قال الخطابی: و لا أعلم خلافًا فی أن المعالج إذا تعدی فتلف المریض کان ضامنا، و المتعاطی علما أو عملا لا یعرفه متعد، فإذا تولد من فعله التلف ضمن الدیة و سقط عنه القود؛ لأنه لا یستبد بذلك دون إذن المریض. و جنایة الطبیب فی قول عامة الفقهاء علی عاقلته…….. (أما إنه لیس بالنعت) أی حکم الضمان لیس بالوصف باللسان، و کذا حکم الکتابة، فإنه إذا وصف الدواء لإنسان فعمل بالمریض فهلك لا یلزم الطبیب الدیة (إنما هو) أی حکم الضمان (قطع العروق) أی الشق (و الکی) بالنار. حاصله أن الطبیب إذا عالج بشئ من المعالجة بیده، مثلا قطع العرق أو شق الجلد أو کواه بمکواة أو سقاه بیده فأوجر فی فیه فتلف فهو جنایة یلزمه الدیة، و أما إذا وصف له الدواء و بینه للمریض فأکل المریض بیده فلا ضمان فیه.
فيض القدير (6/ 137):
(من تطبب ولم يعلم منه طب) أي من تعاطى الطب ولم يسبق له تجربة ، ولفظ التفعل يدل على تكلف الشئ والدخول فيه بكلفة ككونه ليس من أهله (فهو ضامن) لمن طبه بالدية إن مات بسببه لتهوره بإقدامه على ما يقتل، ومن سبق له تجربة وإتقان لعلم الطب بأخذه عن أهله فطب وبذل الجهد الصناعي فلا ضمان عليه.
الأصل للشيباني ط قطر (6/ 583):
ولو سقى رجل رجلاً سما، أو أوجره إياه إيجاراً، فقتله، لم يكن عليه القصاص، وكان  على عاقلته الدية. ولو كان أعطاه إياه فشربه هو لم يكن عليه فيه شيء، ولا شيء على عاقلته، مِن قِبَل أنه شربه هو.
فتاوى قاضي خان (3/ 270):
و لو سقاه سما حتى مات فهو على وجهين: إن دفع إليه السم حتى أكل و لم يعلم به فمات لا قصاص فيه و لا دية لكن يحبس و يعزر،  و لو أوجره إيجارا تجب الدية على عاقلته و إن دفع إليه في شربه فشرب فمات لا تجب الدية لأنه شرب باختياره، إلا أن الدافع خدعه فلا يجب فيه إلا التعزير و الاستغفار.

     عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

    16/ذو القعدۃ/1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب