021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ایسے گھر کے ہبہ کا حکم جس میں واہب خود بھی رہائش پذیر ہو
77436ہبہ اور صدقہ کے مسائلہبہ کےمتفرق مسائل

سوال

جس گھر میں چچا رہائش پذیر تھے وہ گھر جب لیا گیا تھا اس وقت سے میری چچی کے نام پر تھا،پھر انتقال سے دو تین سال پہلے چچا نے زبانی بھی انہیں مالک بنادیا تھا کہ اب سے تم اس گھر کے مالک ہو تو کیا اس گھر میں بھی وارثوں کا حصہ ہوگا؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

چونکہ آپ کے مرحوم چچا خود بھی اس گھر میں رہائش پذیر تھے،اس لئے اس گھر کا ہبہ بھی مکمل نہیں ہوا اور وہ مرتے دم تک بدستور ان کی ملکیت رہا،اس لئے اصولی طور پر اس گھر میں بھی دیگر ورثہ کو حصہ ملے گا،لیکن اگر چچا کے گھر والے ضرورت مند ہیں اور دیگر ورثہ کو اس کی کوئی خاص ضرورت نہیں تو اخلاقی طور پر ان کا فرض بنتا ہے کہ بقیہ میراث میں ان کا جو حصہ بنتا ہے وہ لے کر اس گھر میں اپنے حصے سے چچا کے گھر والوں کے حق میں دستبردار ہوجائیں۔

حوالہ جات
"الفتاوى الهندية "(4/ 380):
"ولو وهب دارا فيها متاع الواهب وسلم الدار إليه أو سلمها مع المتاع لم تصح والحيلة فيه أن يودع المتاع أولا عند الموهوب له ويخلي بينه وبينه ثم يسلم الدار إليه فتصح الهبة فيها وبعكسه لو وهب المتاع دون الدار وخلى بينه وبينه صح، وإن وهب له الدار والمتاع جميعا وخلى بينه وبينهما صح فيهما جميعا...
ولو وهب فارغا وسلم مشغولا لم يصح ولا يصح قوله " اقبضها أو سلمت إليك " إذا كان الواهب فيه أو أهله أو متاعه، كذا في التتارخانية".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

04/محرم1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق غرفی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب