021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
گاؤں میں جمعہ کا مسئلہ
77541نماز کا بیان تکبیرات تشریق کا بیان

سوال

گاؤں  میں ہماری مسجد بنی ہوئی ہے جو تقریبا 2004 میں  بنی تھی،مسجد  مین  روڈ پر ہے  چاروں طرف قریب قریب آبادی  ہے،محتاط  اندازے  کے مطابق  تین سو کے قریب لوگ آباد  ہیں ، گاؤں  میں تین دکانیں  ہیں جو چل رہی ہیں ، ایک آٹا  چکی ہے ،ایک کریانہ  کی دکان ہے،ایک الیکٹرونکس کی دکان ہے، مزید تین دکانیں   قریب قریب کے ہیں ،اور بھی تعمیر ہورہی ہیں ،ایک گورنمنٹ   پرائمری  اسکول   بھی بالکل  سامنے ہے،ایک اور  اسکول  بھی قریب میں ہے،آبادی  کے لوگوں کا مطالبہ ہے کہ  اس گاؤں  میں جمعہ شروع  کیاجائے  ہم جمعہ اسی مسجد میں پڑھیں  گے۔

سوال یہ ہے  کہ مذکورہ صورتحال میں   جمعہ  قائم کرنا  جائز ہے  یا نہیں ؟ آپ  تحریری  فتوی  دیں تاکہ ان لوگوں  کو دکھا کر  جمعہ قائم کیا  جاسکے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

شرعا کسی جگہ  نماز جمعہ  کی ادائیگی  کے لئے ضروری ہے کہ  وہ جگہ شہر،بڑا قصبہ یا شہر کے  مضافاتی   علاقوں میں واقع ہو ،شرعا  شہر  اور بڑا قصبہ  ایسی   جگہ کو کہا جاتا   ہے ،  جہاں گلی کو چے  ، محلے اورروز مرہ  کی خریداری   کے لئے  بازار علاج معالجہ  کے لئے  ہسپتال ،ڈاکخانہ  نزاعات  ﴿  جھگڑے  ﴾  وغیرہ ختم کرنے کے لئے  قاضی، پنچائیت   ،یا تھانے وغیرہ کا نظام موجود ہو ۔

جہاں یہ شرائط  موجود  ہوں  وہاں  جمعہ  قائم کرنا  جائز  ہے ، اور جس مقام پر یہ شرائط  موجود نہ ہوں وہاں جمعہ قائم کرنا جائز نہیں ، شرائط  موجود نہ ہونے کے  باوجود  جمعہ قائم کرنا سخت گناہ اور بہت سے مفاسد کا مجموعہ ہے ،بڑا مفسدہ یہ ہے کہ سب کی ظہر کی نماز ضائع ہوگی ۔

اس  وضاحت کے  بعد ؛سوال میں ذکر کردہ  گاؤَ ں میں صحت  جمعہ  کی شرائط  موجود  نہیں  ہے ، اس لئے  مذکورہ  گاؤں میں جمعہ پڑھنا جائز نہیں ،بلکہ  جمعہ کے دن  بھی  ظہر کی نماز باجماعت پڑھی جائے گی۔ البتہ اگر کسی کے پاس   وقت ہو توکسی قریبی  شہر میں  جاکر  جہاں صحت جمعہ  کی شرائط  پائی جائیں جمعہ ادا کرلیاکریں اس کی بھی شرعا اجازت ہے ،ورنہ  پھرسب کے ساتھ گاؤں ظہر کی نماز  پڑھے۔

حوالہ جات
 الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 137)
 في التحفة عن أبي حنيفة أنه بلدة كبيرة فيها سكك وأسواق ولها رساتيق وفيها وال يقدر على إنصاف المظلوم من الظالم بحشمته وعلمه أو علم غيره يرجع الناس إليه فيما يقع من الحوادث وهذا هو الأصح اهـ إلا أن صاحب الهداية ترك ذكر السكك والرساتيق لأن الغالب أن الأمير والقاضي الذي شأنه القدرة على تنفيذ الأحكام وإقامة الحدود لا يكون إلا في بلد كذلك. اهـ.          
         البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (2/ 152)
وفي حد المصر أقوال كثيرة اختاروا منها قولين: أحدهما ما في المختصر ثانيهما ما عزوه لأبي حنيفة أنه بلدة كبيرة فيها سكك وأسواق ولها رساتيق وفيها وال يقدر على إنصاف المظلوم من الظالم بحشمه وعلمه أو علم غيره والناس يرجعون إليه في الحوادث قال في البدائع، وهو الأصح وتبعه الشارح، وهو أخص مما في المختصر، وفي المجتبى وعن أبي يوسف أنه ما إذا اجتمعوا في أكبر مساجدهم للصلوات الخمس لم يسعهم، وعليه فتوى أكثر الفقهاء وقال أبو شجاع هذا أحسن ما قيل فيه، وفي الولوالجية وهو الصحيح، وفي الخلاصة الخليفة إذا سافر، وهو في القرى ليس له أن يجمع بالناس، ولو مر بمصر من أمصار ولايته فجمع بها، وهو مسافر جاز

احسان اللہ شائق عفا اللہ عنہ    

       دارالافتاء جامعة الرشید     کراچی

١۷ محرم الحرام ١۴۴۴ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

احسان اللہ شائق صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب