021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مدارس کےبچوں کوزکوۃ کی رقم سےکپڑےوغیرہ لےکردینا
77815زکوة کابیانزکوة کے جدید اور متفرق مسائل کا بیان

سوال

السلام علیکم!عرض ہے کہ ہم دوست احباب مل کر ایک تعلیمی فاؤنڈیشن چلا رہے ہیں، جس کا بنیادی مقصد اسکول کے بچوں (ترجیحا یتیم،نادار اور مستحق بچوں )کو اسکول بیگ فراہم کرنا ہے،مزید یہ کہ  ہم مدارس کے بچوں کو ان سلے کپڑے بھی فراہم کرتے ہیں،مزید برآں بعض اوقات ہم اسکول کے بچوں کو جوتے،یونیفارم اور کتابیں بھی فراہم کرتے ہیں۔صورت مذکورہ میں سوال یہ ہے کہ ہمارے پاس تعاون کی شکل میں جورقم آتی ہے اس میں زکوۃ،صدقہ،ہبہ اور فطرانہ ہر طرح کی رقم  ہوتی ہے،اب مدارس کے بچوں کو  زکوۃ کی رقم سے کچھ لےکر دینے میں تو بظاہر کوئی مسئلہ نہیں ،اگر ہے تو وضاحت کر دیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

زکوۃ اگرمدرسہ کےمنتظمین کو دی جائےتواس طرح مدارس کےبچوں کوزکوۃ کی رقم سےکچھ لےکردینےمیں حرج نہیں،کیونکہ عام طورپرمدارس  میں تملیک کی صورت پائی جاتی ہے(اس طورپرکہ مدرسےکےمنتظمین داخلےکےوقت طلبہ یاطلبہ کےسرپرست حضرات سےوکالت فارم پردستخط کرواتےہیں)اس لیےایسی صورت میں اس بات کی تحقیق کی کوئی ضرورت نہیں کہ خاص جس طالب علم کوکپڑےوغیرہ زکوۃ کی چیزیں دی جائیں وہ مستحق زکوۃ ہے یانہیں ،البتہ  اس طرح مدارس کی انتظامیہ کو زکوۃ دیتےوقت اس کی معلومات کرنا  ضروری ہیں  کہ ان کےمدرسےمیں اس طرح تملیک کاانتطام ہےیانہیں ،کیونکہ اگرکسی مدرسےمیں مذکورہ بالاتملیک(وکالت)کی صورت نہ  پائی جاتی ہوتووہاں عمومی طورپرسب طلبہ میں تقسیم کےلیےزکوۃ کی چیزیں دیناجائزنہیں  ہے۔

اوراگرزکوۃ کی چیزبراہ راست طلبہ میں تقسیم کی جائیں تو ایسی صورت میں شرعایہ ضروری ہےکہ زکوۃ کی رقم یاکپڑےوغیرہ صرف ایسےمستحق طلبہ کودیں جو سیدیامالدارنہ ہوں،اوراگرنابالغ ہوں تواس کےوالدسیدیامالدارنہ ہو،یہ تحقیق کیےبغیرکسی بھی طالب علم کوزکوۃ کی رقم دینےیازکوۃ کی رقم سےکچھ خریدکردینےسےزکوۃ اداء نہ ہوگی ،بلکہ انفرادی طورپرطالب علم کی تفصیل معلوم کرکےمستحق زکوۃ طالب علم کو زکوۃ کی رقم کامالک بناناضروری ہوگا۔

حوالہ جات
"الفتاوى الهندية"1/190:
إذا دفع الزكاة إلى الفقير لا يتم الدفع ما لم يقبضها أو يقبضها للفقير من له ولاية عليه نحو الأب والوصي يقبضان للصبي والمجنون كذا في الخلاصة، أو من كان في عياله من الأقارب أو الأجانب الذين يعولونه والملتقط يقبض للقيط، ولو دفع الزكاة إلى مجنون أو صغير لا يعقل فدفع إلى أبويه أو وصيه قالوا: لا يجوز كما لو وضع على دكان ثم قبضها فقير لا يجوز، ولو قبض الصغير وهو مراهق جاز وكذا لو كان يعقل القبض بأن كان لا يرمي ولا يخدع عنه۔

محمدبن عبدالرحیم

دارلافتاء جامعۃ الرشیدکراچی

14/صفر 1444ھج

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمّد بن حضرت استاذ صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب