021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بالغ اولاد کے لئے والد کی حرام کمائی استعمال کرنا
77952جائز و ناجائزامور کا بیانخریدو فروخت اور کمائی کے متفرق مسائل

سوال

والد صاحب نے قومی بچت اسکیم میں انویسمنٹ کی ہے،اب وہاں سے جو پیسے آتے ہیں انہیں سے گھر کا سودا سلف،دودھ وغیرہ کا خرچہ چلتا ہے،اب شرعا تو وہاں سے آنے والے پیسے سود کے حکم میں ہیں،سوال یہ ہے کہ مجھے اور بقیہ بھائی کو بھی اس کا گناہ ہوگا،کیونکہ ہم بھی اسی رقم سے خریدے گئے راشن وغیرہ سے استفادہ کرتے ہیں؟

سارے بھائی بالغ ہیں،میں خود بھی ایک طالب علم ہوں اور یونیورسٹی میں پڑھ رہا ہوں،باقاعدہ نوکری نہیں کررہا،مگر ٹیوشن وغیرہ پڑھا کر اپنا جیب خرچ نکال لیتا ہوں،مہینے کا الحمد للہ بیس پچیس ہزار کمالیتا ہوں،کیا میرے ذمے بھی گھر کے اخراجات میں مالی طور پر حصہ شامل کرنا لازم ہوگا؟

اگر لازم ہے تو کتنی رقم مجھے شامل کرنی ہوگی؟اور ان بھائیوں کا کیا حکم ہوگا جو نوکری کررہے ہیں اور ماہانہ اچھا کماتے ہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

چونکہ آپ اور آپ کے بھائی عاقل بالغ اور خود کمانے پر قادر ہیں،اس لئے آپ اور آپ کے دیگر بھائیوں کے لئے والد کی حرام کمائی سے خریدی گئی اشیاء کو استعمال میں لانا جائز نہیں،بلکہ حلال کمائی سے اپنے اور اپنے اہل وعیال کے لئے راشن وغیرہ کا انتظام ضروری ہے اور اب تک جتنی حرام کمائی استعمال کی ہے اس کا محتاط اندازہ لگاکر اس کے بقدر رقم صدقہ کرنا لازم ہے،تاہم یہ واضح رہے کہ آپ کے والد نے جتنی رقم قومی بچت اسکیم میں دی ہے اس کے بقدر وصول ہونے والی رقم حلال ہے،البتہ اس کے علاوہ اضافی ملنے والی رقم یقینی طور پر سود ہونے کی وجہ سے حرام ہوگی۔

نیز آپ سب بھائیوں کا شرعی اور اخلاقی فرض ہے کہ ادب و احترام کو ملحوظ رکھ کر حکمت کے ساتھ والد صاحب کو حرام کھانے کی نحوست سے آگاہ کریں اور انہیں مذکورہ بالا حرام ذریعہ آمدن کے علاوہ کوئی اور حلال ذریعہ آمدن اختیار کرنے پر آمادہ کریں۔

حوالہ جات
"فتح القدير " (4/ 410):
"(فصل) (قوله ونفقة الأولاد الصغار على الأب لا يشاركه فيها أحد) قيد بالصغر فخرج البالغ وليس هذا على الإطلاق بل الأب إما غني أو فقير، والأولاد إما صغار أو كبار، فالأقسام أربعة: الأول أن يكون الأب غنيا والأولاد كبارا، فإما إناث أو ذكور، فالإناث عليه نفقتهن إلى أن يتزوجن إذا لم يكن لهن مال، وليس له أن يؤاجرهن في عمل ولا خدمة وإن كان لهن قدرة، وإذا طلقت وانقضت عدتها عادت نفقتها على الأب، والذكور إما عاجزون عن الكسب لزمانة أو عمى أو شلل أو ذهاب عقل فعليه نفقتهم.....
أما الكبار فعلى الظاهر كما سيأتي وإن لم يكونوا عاجزين لا نفقة لهم".
"رد المحتار "( 26 / 453) :
"وقال في النهاية : قال بعض مشايخنا : كسب المغنية كالمغصوب لم يحل أخذه ، وعلى هذا قالوا لو مات الرجل وكسبه من بيع الباذق أو الظلم أو أخذ الرشوة يتورع الورثة ، ولا يأخذون منه شيئا وهو أولى بهم ويردونها على أربابها إن عرفوهم ، وإلا تصدقوا بها؛ لأن سبيل الكسب الخبيث التصدق إذا تعذر الرد على صاحبه ا هـ".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

05/ربیع الاول1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق غرفی

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب