021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
عدالتی کا غذات کےذریعہ زمین خریدنےکادعوی
78094خرید و فروخت کے احکامخرید و فروخت کے جدید اور متفرق مسائل

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان دین و متین  اس مسئلے کے بارے میں کہ  محمد دین نے نصیر  سے 2004میں رقبہ زرعی زمین قانونی دستاویز گواہوں سمیت  400000 رقم جمع کروائی   اور وقت مقرر پر گواہوں کے سامنے رقم اداکردی  اور نصیرنے ایک رقبہ زمین کا مکمل قبضہ دیا، محمد دین نےاسی خریدی ہوئی  زمین پر مسجد ومدرسہ وگھر تیارکروایا اور دینی تعلیم کے ساتھ جمعہ، نماز عیدین ،جنازہ اوراسلامی تعلیم شروع کی اوردستور العمل ایکٹ 860 کے تحت رجسٹر بھی کروادیا مگر کھاتہ نہیں رکھوایا(یعنی زمین اپنے نام منتقل نہیں کروایا )  دوسال بعد محمد بچل(دوسرے شخص ) نے 2006 میں ( سروے نمبر 70  تحصیل وضلع) دوسال بعد وہ زمین جو محمد دین نےاصل  مالک (نصیر)سےخریدی تھی اسکے   دستاویز بنوا کر عدالت میں دعوی  داخل کیا  اور قبضہ  طلب کیا ،بالآخر 2009  میں محمد بچل  نے عدالت سے ڈگری لیکر پیسے عدالت کے ناظر کےپاس جمع کرکے اب قبضہ لینے کےلیے عدالت میں پٹیشن داخل کی ہوئی ہے کہ مسجد و مدرسہ غیر قانونی قبضہ کیا ہوا ہے،اس میں نماز پڑھنا چندہ دینا، بچے پڑھانا یا  دیگر عبادات ناجائز اور حرام ہیں، حالانکہ اسکے دستاویز سے دوسال قبل مسجد ومدرسہ تعمیر شدہ ہے اور مالک زمین(نصیر) کی مملوکہ زمین ہےقانونی اور شرعی طور اسکی ملکیت ہے، اپنی رضا اور  خوشی سے مسجد ومدرسہ میں چندہ وغیرہ  بھی دیتا ہے اور وہ کھاتا دینے کےلیے رضامند ہے۔

جواب طلب سوال یہ ہے کہ کیا یہ ملکیت شرعی طور پر پہلے خریدار محمدالدین  کی ہے یا دو سال بعدزمین عدالت سے ڈگری حاصل کرنے والے محمد بچل کی ہے    ؟ مفصل جواب عنایت فرماکر ممنون فرمائے، فجزاک اللہ خیرا

تنقیح:سائل نےوضاحت کی ہےکہ یہ زمین نصیرکی ذاتی تھی، محمدبچل نصیرخان کاپڑوسی ہے،محمدنصیرنےجب اپنی زمین بیچنےکاارادہ کیاتوپہلےمحمدبچل کوبتایاتھاکہ میں زمین بیچ رہاہوں،تومحمدبچل نےاس وقت خریدنےسےانکارکردیا،تونصیرنےوہ  زمین محمددین کو بیچ دی ،بعدمیں 2006میں محمدبچل نےکورٹ میں جاکر یہ زمین خریدنےکی درخواست دی اورنصیرکوکہاکہ یہ زمین میں نےخریدلی ہے،جبکہ نصیروہ زمین محمددین کوبیچ چکاہےاورپیسےلےکرقبضہ بھی دےچکاہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سائل کی وضاحت کےمطابق چونکہ زمین نصیرکی ذاتی ملکیت تھی اوراس نےاپنی ذاتی زمین محمددین کو بیچی اور محمددین نےپیسےدےکرزمین پرقبضہ بھی کرلیاتویہ بیع شرعامکمل ہوگئی ہے،اس کےبعدمحمددین کااس جگہ مسجدمدرسہ یاگھربناناوغیرہ شرعاسب جائزہے،اپنی ذاتی زمین میں مالک کومکمل اختیارہوتاہے،لہذاموجودہ صورت میں یہ جگہ محمددین ہی  ہوگی۔

ایک دفعہ چونکہ بیع مکمل ہوچکی ہے،لہذا اس کےبعدمحمدبچل کااس زمین کونصیرسےخریدنااور عدالت کےذریعہ جعلی  کاغذات بنواکرملکیت کی ڈگری حاصل کرناشرعاغصب اورناجائزقبضہ شمارہوگا،جوکہ حرام ہے،ناجائزقبضہ پرقرآن وحدیث میں بہت سخت وعیدیں واردہوئی ہیں،اس لیےموجودہ صورت میں محمدبچل کادعوی درست نہیں،شرعااس طرح کی بیع معتبرنہیں ہوگی،اورخلاف  شریعت کاغذات  بنواکرڈگری لینےکابھی شرعااعتبارنہیں ہوگا۔

حوالہ جات
"صحيح البخاري" 6 / 2710:
 عن أبي وائل عن عبد الله رضي الله عنه قال  : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم ( من اقتطع مال امرئ مسلم بيمين كاذبة لقي الله وهو عليه غضبان ) قال عبد الله ثم قرأ رسول الله صلى الله عليه و سلم مصداقة من كتاب الله جل ذكره { إن الذين يشترون بعهد الله وأيمانهم ثمنا قليلا أولئك لا خلاق لهم في الآخرة ولا يكلمهم الله } . الآية
"سنن ابن ماجه" 2 / 778:
عن عبد الله بن مسعود قال قال رسول الله صلى الله عليه و سلم :من حلف على يمين وهو فيها فاجر يقتطع بها مال امرئ مسلم لقي الله وهو عليه غضبان )
"صحيح مسلم للنيسابوري"5 /  58:
حدثنا أبو بكر بن أبى شيبة حدثنا يحيى بن زكرياء بن أبى زائدة عن هشام عن أبيه عن سعيد بن زيد قال سمعت النبى -صلى الله عليه وسلم- يقول « من أخذ شبرا من الأرض ظلما فإنه يطوقه يوم القيامة من سبع أرضين »۔

محمدبن عبدالرحیم

دارلافتاء جامعۃ الرشیدکراچی

05/ربیع الثانی  1444ھج

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمّد بن حضرت استاذ صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب