021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
اسٹارکلکس(starclicks)ویب سائٹ پر اشتہارات دیکھنے کا حکم
78108اجارہ یعنی کرایہ داری اور ملازمت کے احکام و مسائلملازمت کے احکام

سوال

ایک انگریزی ویب سائٹ ہے جس کا نام www.starclicks.com  ہے،اس میں دو طریقے سے کام ہوتا ہے۔

طریقہ نمبر (۱):سب سے  پہلے اس میں کچھ پیسے انویسٹ کرکے پیکج upgrade کیا جاتا ہے، اس کے بعد روزانہ  کےکچھ اشتہارات  ملتے ہیں، ان اشتہارات کو دیکھنا ہوتا ہے جب اشتہارات دیکھ لیتے ہیں تو پھر جتنے اشتہارات دیکھے ہوتے ہیں ان کے ہمیں پیسے ملتے ہیں ،روزانہ اسی طرح کام کرنا ہوتا ہے،جو اشتہارات ہم دیکھتے ہیں ان میں ٹوٹل معلومات ہوتی ہیں ،ان میں میوزک،ویڈیو اور کوئی بے ہودہ تصویر نہیں ہوتی۔

طریقہ نمبر(۲):دوسرا طریقہ یہ ہے کہ کام اسی طرح کرنا ہوتا ہے مگر اس میں پیسے انویسٹ نہیں کرنے پڑتے، پیکج نہیں لگانا پڑتا،اس میں روزانہ کچھ اشتہارات دیکھنے ہوتے ہیں اور پھر اس کے ہمیں پیسے ملتے ہیں،ان اشتہارات میں بھی کوئی بے ہودہ تصویر،میوزک اور ویڈیو نہیں ہوتی،کیا اس کی کمائی حلال ہے یا حرام؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ اشتہارات دیکھنے کا کام اجارہ (ملازمت) کا فعل ہے،جس میں اشتہار دیکھنے والے کو اشتہار دیکھنے کی اجرت دی جاتی ہے،یہ کوئی ایسی منفعت نہیں جو اصلاً مقصود ہو اور شرعاً اس کی اجرت لی جا سکے، اس کے برعکس یہ کام جعل سازی کے لیے اکثر استعمال ہوتا ہے، مثلاً کمپنیاں اشتہار بازی (Advertisement) اس لیے  کرتی ہیں کہ ان کی مصنوعات کی فروخت میں اضافہ ہو سکے،  جبکہ یہاں کسی کمپنی کو یہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ اس کی پراڈکٹ یا ایپلیکیشن تک اتنے لوگوں کی رسائی ہے حالانکہ وہ لوگ اپنے معاوضے کے لیے اشتہار دیکھ رہے ہوتے ہیں،اسی طرح سوال میں ذکر کردہ پہلے طریقے کے مطابق اشتہارات دیکھنے کے کام کے لیے پیکج خریدا جاتا ہے جو حقیقتاً اجارے (ملازمت) کے حق کو خریدنا ہے، یہ حق مجرد کی بیع ہے یعنی بلا کسی عوض ادائیگی کی ایک صورت ہے اور اکل بالباطل اور رشوت کے زمرے میں آتی ہے، یہ جائز نہیں  ہے اور اس لیے اس سے اجتناب لازم ہے۔لہٰذا مذکورہ تفصیل کی روشنی میں اشتہارات کے پیکجز خریدکر یا  پیکج خریدے بغیر اجرت حاصل کرنے کے لیے اشتہارات دیکھنا جائز نہیں ہےاور اس کی آمدن  بھی شرعاً درست نہیں ہے۔

حوالہ جات
ومقتضى هذين التعريفين أن المال مقصور على الأعيان المادية، فلا يشمل المنافع والحقوق المجردة، ولذلك صرح الفقهاء الحنفية بعدم جواز بيع المنافع والحقوق المجردة، وقد صرحوا بأن بيع حق التعلي لا يجوز.
(مجلة مجمع الفقه الإسلامي، مقالة الشيخ محمد تقي العثماني، 5/1931)
قال الحصكفي ؒ: "وشرعا (تمليك نفع) مقصود من العين (بعوض) حتى لو استأجر ثيابا أو أواني ليتجمل بها أو دابة ليجنبها بين يديه أو دارا لا ليسكنها أو عبدا أو دراهم أو غير ذلك لا ليستعمله بل ليظن الناس أنه له فالإجارة فاسدة في الكل، ولا أجر له لأنها منفعة غير مقصودة من العين بزازية."
علق عليه ابن عابدين ؒ: "(قوله مقصود من العين) أي في الشرع ونظر العقلاء، بخلاف ما سيذكره فإنه وإن كان مقصودا للمستأجر لكنه لا نفع فيه وليس من المقاصد الشرعية، وشمل ما يقصد ولو لغيره لما سيأتي عن البحر من جواز استئجار الأرض مقيلا ومراحا، فإن مقصوده الاستئجار للزراعة مثلا، ويذكر ذلك حيلة للزومها إذا لم يمكن زرعها تأمل."
(الدر المختار و حاشية ابن عابدين، 6/4، ط: دار الفكر)

محمد حمزہ سلیمان

دارالافتا ء،جامعۃالرشید ،کراچی

07/ربیع الثانی/1444ہجری

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد حمزہ سلیمان بن محمد سلیمان

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب