021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ایمازون کے کاروبار میں شرکت کا مسئلہ
78103شرکت کے مسائلشرکت سے متعلق متفرق مسائل

سوال

ایک تاجر جو کہ آپ کے فتوی  نمبر:75855/61کے مطابق ہول سیل تاجر کے طور پر ایمازون پر کام کرتا ہے، جس کی تفصیل یہ ہے کہ وہ آئی فون کو ہول سیل کے ریٹ پر حاصل کرکے ایمازون کے ویئرہاؤس (Warehouse)میں اپنی رجسٹرڈ جگہ پر رکھتا ہے اور پھر آگے ایمازون کے قوانین کی پابندی کرتے ہوئے آگے بیچتا ہے اور یہ تاجر ایمازون کی طرف سے باقاعدہ چار پانچ ممالک میں آن لائن مارکیٹ میں کام کرتا ہے، آپ کے فتوی کے مطابق مجھے ان کا کاروبار جائز معلوم ہوتا ہے، سوال یہ ہے کہ میں بطورِ انویسٹر کس طرح اس تاجر کے ساتھ اپنا سرمایہ انویسٹ کر سکتا ہوں؟ یہ تاجر مندرجہ ذیل شرائط کے ساتھ ایگریمنٹ کرتا ہے:

  1. نفع اور نقصان میں دونوں فریق برابر کے شریک ہوں گے۔
  2. ٹوٹل نفع میں سے ہر انویسٹر سے بیس فیصد دفتر، ملازمین کی تنخواہیں اور متفرق اخراجات جیسے ٹیکس وغیرہ کی مد میں کٹوتی کرتے ہیں اور باقی پرسنٹیج کے حساب سے کم اور زیادہ جو کہ فکس نہیں ہوتا، شرکاء کو نفع دیا جاتا ہے اور یہ حساب کتاب وہ خود کرتے ہیں، انویسٹر کے علم میں نہیں ہوتا کہ کتنا نفع ہوا؟
  3. اپنی جمع شدہ رقم واپس لینے کے لیے دو ماہ پہلے بتانا پڑتا ہے، اس کے بعد آپ کو رقم دی جائے گی۔
  4. کاروبار کا نفع ہر دو ماہ کے بعد ملے گا، ہر ماہ حساب نہیں ہو گا۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سوال میں ذکر کی گئی شرائط میں سے پہلی شرط میں  نقصان برابر برداشت کرنے کی بات درست نہیں، بلکہ اس میں تفصیل ہے، وہ یہ کہ اولاً  اس کی دو صورتیں ہیں:

پہلی صورت:  اس تاجر کا اپنا سرمایہ بھی کاروبار میں لگا ہو تو اس صورت میں یہ معاملہ شرکت کا ہو گا، جس میں نقصان کا اصول یہ ہے کہ ہر شریک اپنے سرمایہ کے تناسب سے نقصان برداشت کرنے کا ذمہ دار ہو گا، لہذا اگردونوں شرکاء کا سرمایہ برابر لگا ہو تو دونوں برابر نقصان برداشت کریں گے، لیکن اگر سرمایہ کا تناسب کم و بیش ہو تو نقصان بھی اسی تناسب سے برداشت کرنا ہو گا، اگر شرکاء اس کے علاوہ کسی تناسب سے نقصان برداشت کرنے کی شرط لگائیں تو شرعاً اس کا اعتبار نہیں ہو گا۔

دوسری صورت: اس کا اپنا سرمایہ نہ لگا ہو، بلکہ وہ دوسروں کے سرمایہ سے کاروبار کرتا ہو تو اس صورت میں یہ مضاربت کا معاملہ ہو گا اور مضاربت میں شرعاً تمام نقصان سرمایہ کار یعنی انویسٹر برداشت کرےگا اور اگر انویسٹر ایک سے زائد ہوں تو ہر ایک پر اس کے سرمایہ کے تناسب سے نقصان ڈالا جائے گا، اس سے کم وبیش کی شرط لگانا جائز نہیں۔ مضارب یعنی کام کرنے والا کسی قسم کے نقصان کا ذمہ دار نہیں ہو گا، بشرطیکہ اس کی کوتاہی اور غفلت سے نقصان  نہ ہوا ہو، البتہ اس صورت میں کام کرنے والا شریک یعنی مضارب بھی کسی نفع کا مستحق نہیں ہو گا۔

دوسری شرط میں اخراجات کی ادائیگی کے لیے ٹوٹل نفع میں سے ہر انویسٹر سے بیس فیصد  کٹوتی کی جو شرط لگائی گئی ہے، یہ بھی اصولی طور پر درست نہیں، کیونکہ اصول یہ ہے کہ کاروباری اخراجات (خواہ وہ اخراجات کم ہوں یا زیادہ) اولاً نفع سے اور اگر بالفرض نفع نہ ہو تو سرمایہ سے ادا کیے جائیں گے، لہذا بہرصورت (اگرچہ اخراجات کم ہوں) نفع میں سے بیس فیصد کٹوتی کی شرط لگانا درست نہیں۔

ان کے علاوہ باقی دونوں شرطیں انتظامی نوعیت کی ہیں اور وہ درست ہیں، البتہ شرعی نقطہٴ نظر سے شرکت کے لیے درج ذیل مزید شرائط کو بھی مدِ نظر رکھنا ضروری ہے:

الف: شرکت کا معاملہ کرتے وقت فریقین کے سرمایہ کا تناسب معلوم ہونا ضروری ہے، اس کے بغیر شرکت کا معاملہ درست نہیں ہو گا، لہذا شرکت کرتے وقت پہلے سے موجود کاروبار میں موجود سرمایہ اوران  اثاثہ جات کی قیمت لگانا ضروری ہے،جو کہ اس کاروبار میں ڈائریکٹ استعمال ہو رہے ہوں،  تاکہ فریقین کے سرمایہ کا تناسب معلوم ہو سکے۔

ب: جس شریک کا کاروبار میں کام نہ کرنا طے ہو اس کے نفع کی شرح اس کی طرف سے کاروبار میں لگائے گئے سرمایہ کے تناسب سے زیادہ مقرر کرنا درست نہیں۔

ج: کسی شریک کی طرف سے دوسرے شریک کے سرمایہ کی ضمانت لینا درست نہیں، بلکہ کام کرنے والے شریک کے پاس سرمایہ امانت ہو گا، جو بغیر کوتاہی اور غفلت کے نقصان کی صورت میں سرمایہ کا ضامن اور ذمہ دار نہیں ہو گا۔

ان شرائط کے ساتھ آپ اس تاجر کے ساتھ اپنی رقم انویسٹ کر سکتے ہیں، بشرطیکہ وہ  تاجرسابقہ فتوی میں ذکر کی گئی شرائط کے مطابق کاروبار کرتا ہو۔

حوالہ جات
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (6/ 62) دار الكتب العلمية:
(وأما) شركة العنان فلا يراعى لها شرائط المفاوضة فلا يشترط فيها أهلية الكفالة حتى تصح ممن لا تصح كفالته من الصبي المأذون والعبد المأذون والمكاتب ولا المساواة بين رأسي المال، فيجوز مع تفاضل الشريكين في رأس المال ومع أن يكون لأحدهما مال آخر يجوز عقد الشركة عليه سوى رأس ماله الذي شاركه صاحبه فيه، ولا أن يكون في عموم التجارات بل يجوز عاما وهو أن يشتركا في عموم التجارات، وخاصا وهو أن يشتركا في شيء خاص كالبز والخز والرقيق والثياب ونحو ذلك؛ لأن اعتبار هذه الشرائط في المفاوضات لدلالة اللفظ عليها وهو معنى المساواة ولم يوجد في العنان ولا لفظة المفاوضة؛ لأن اعتبارها في المفاوضة لدلالتها على شرائط مختصة بالمفاوضة، ولم يشترط في العنان فلا حاجة إلى لفظة المفاوضة ولا إلى لفظة العنان أيضا؛ لأن كل أحد يقدر على لفظ يؤدي معناه بخلاف المفاوضة ولا المساواة في الربح، فيجوز متفاضلا ومتساويا لما قلنا، والأصل أن الربح إنما يستحق عندنا إما بالمال وإما بالعمل وإما بالضمان، أما ثبوت الاستحقاق بالمال فظاهر؛ لأن الربح نماء رأس المال فيكون لمالكه، ولهذا استحق رب المال الربح في المضاربة وأما بالعمل، فإن المضارب يستحق الربح بعمله فكذا الشريك.
وأما بالضمان فإن المال إذا صار مضمونا على المضارب يستحق جميع الربح، ويكون ذلك بمقابلة الضمان خراجا بضمان بقول النبي - عليه الصلاة والسلام - «الخراج بالضمان» ، فإذا كان ضمانه عليه كان خراجه له، والدليل عليه أن صانعا تقبل عملا بأجر ثم لم يعمل بنفسه، ولكن قبله لغيره بأقل من ذلك طاب له الفضل، ولا سبب لاستحقاق الفضل إلا الضمان، فثبت أن كل واحد منهما سبب صالح لاستحقاق الربح، فإن لم يوجد شيء من ذلك لا يستحق بدليل أن من قال لغيره: تصرف في ملكك على أن لي بعض ربحه؛ لم يجز، ولا يستحق شيئا من الربح لأنه لا مال ولا عمل ولا ضمان، إذا عرف هذا فنقول: إذا شرطا الربح على قدر المالين متساويا أو متفاضلا، فلا شك أنه يجوز ويكون الربح بينهما على الشرط سواء شرطا العمل عليهما أو على أحدهما والوضيعة على قدر المالين متساويا ومتفاضلا؛ لأن الوضيعة اسم لجزء هالك من المال فيتقدر بقدر المال، وإن كان المالان متساويين فشرطا لأحدهما فضلا على ربح ينظر إن شرطا العمل عليهما جميعا جاز، والربح بينهما على الشرط في قول أصحابنا الثلاثة .

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی

7/ربيع الثانی 1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب