021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مکان پر بھائیوں کا دعوی
78105دعوی گواہی کے مسائلمتفرّق مسائل

سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!نہایت ادب سے عرض ہے کہ میرے والد محترم اپنے والد اور اپنے دو بڑے بھائیوں کے ساتھ ضلع ٹانک میں رہائش پذیر تھے۔میرے داد کوئی کام کاج نہیں کرتے تھے ۔ اور دوانکل اینٹوں کے بھٹوں پر مزدوری کرتے تھے ۔ اور میرے والد صاحب درزی کا کام سیکھ کرٹیلر ماسٹر کا کام کرتے تھے ۔ میرے داد کی کوئی جائیداد ، مال مویشی ، نقدی ، سامان نہیں تھا۔ اس وقت میرے والد پر کافی قرض تھا۔اور میرے دونوں انکل نے اسے ادا کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ پھر میرے والد محترم اپنے گھر سے ناراض ہو کر علیحدگی اختیار کر کے ضلع ژوب بلوچستان میں آ کر آباد ہو گئے ۔ وہاں اللہ تعالی کے رحم وکرم سے کاروبار میں برکت ہوئی اور محکمہ پولیس میں ٹیلر ماسٹر کی نوکری بھی لگ گئی۔ کاروبارونوکری سے میرے والد صاحب نے اپنا قرض اتارا ۔ اس کے بعد میرے والد صاحب نے اپنی ہی کمائی سے ایک مکان ضلع ٹانک میں قسط پرخریدا۔ اپنے بھائیوں کو وہاں صرف رہائش کے لئے دیا۔ پانچ سال بعد دوسرا مکان ضلع ٹانک میں خریدا ۔ اور اپنےبھائیوں کو صرف رہائش کے لئے دیا۔ اور دوسرا مکان کرایہ پر دے دیا۔ بعد میں کچھ سال بعد ایک پلاٹ بھی وہاں خریدا۔ چونکہ میرے والدصاحب بمعہ فیملی ضلع ژوب میں سرکاری مکان میں رہائش پذیر تھے۔ میرے والد محترم صاحب نے اپنی زندگی میں اپنے بھائیوں کےساتھ کافی بار مالی معاونت کی۔ان کے قرض اتارے۔اور سن 2004ء میں بقضاۓ الہی وفات پا گئے۔ میرا ایک چچا اس ٹائم سے اس مکان میں رہائش پذیر ہے۔ اور ہمیں تنگ کر رہا ہے کہ یہ مکان 10 مرلے مجھے دے دو . اس کے بعد میرے دونوں چاچوں نے ہمارےساتھ کوئی تعلق نہیں رکھا۔ نہ ہی کوئی مالی و جانی مدد کی ۔ ہم چار بہن بھائی یتیم رہ گئے تھے ۔ جن کو میری والدہ محترمہ نے خود کفالت کی ۔

ا۔ اب میرے ایک چچامحمد نواز کہہ رہا ہے کہ ہم بھائی ایک ساتھ تھے ۔ اس کی جائیداد میں میرا حصہ ہے،میرےساتھ تقسیم کرو،جبکہ جائیداد میرے والد صاحب نے اپنے پیسوں سے خریدی ہے،کسی بھی بھائی کا ایک روپیہ بھی نہیں ہے۔اور نہ ہی یہ جائیدادوراثتی ہے۔ مکان، جائیداد میرے والد صاحب نے خریدے ہیں،اپنی کمائی سے ۔ کیا اس مکان میں اسکا حصہ بنتا ہے یا نہیں ؟ اس کے بارے میں شرعی رہنمائی چاہئے ۔ )مکان

/جائیداد کا انتقال میرے والد صاحب کے نام پرہے(

۲۔محمدنواز کہہ رہاہے کہ میں نے اپنے مرحوم بھائی عبدالرزاق کا قرض اتارا ہے۔ اس بناء پر میرا اپنے بھائی عبد الرزاق کی جائیداد میں حصہ بنتا ہے ۔ کیا اس بیان پر انکا حصہ بنتا ہے یا نہیں؟ اس پر شرعی راہنمائی چاہئیے ۔

نوٹ. مذکورہ بالا بیان کرده مکان / جائیداد میرے والد محترم کے نام پر انتقال/ رجسٹری شدہ تھا ۔ اوراب ہم تین بھائیوں، بہن اور والدہ محترمہ کے نام پر وراثتی انتقال/ رجسٹری ہوچکاہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

1۔اگر سوال میں موجود صورت حقیقت کے مطابق ہے،تو ذاتی کمائی سے خریدے گئے مکان وغیرہ میں کسی اور کا حصہ نہیں ہوگا۔

2۔ بھائی نے یہ دعوی کیا ہے کہ اس نے فوت شدہ بھائی کا قرض ادا کیا ہے ،اگر یہ دعوی شرعی گواہ سے ثابت ہو،اور بھائی نے اس قرض کی ادائیگی کی اجازت بھی دی ہو تب تو قرض کی مقدار رقم لینے کا اس کو حق ہے، تاہم اس سے بھی بھائی کی جائیداد میں حصہ دار نہیں بن سکتا ہے۔ اگر ان دونوں باتوں میں سے کوئی ایک بات بھی نہ ہوتو یہ رقم لینے کااختیار بھی نہیں ہے۔

حوالہ جات
وفي بدائع الصنائع(6/264):
وَأَمَّا بَيَانُ حُكْمِ الْمِلْكِ وَالْحَقِّ الثَّابِتِ فِي الْمَحِلِّ فَنَقُولُ وَبِاَللَّهِ التَّوْفِيقُ حُكْمُ الْمِلْكِ وِلَايَةُ التَّصَرُّفِ لِلْمَالِكِ فِي الْمَمْلُوكِ بِاخْتِيَارِهِ لَيْسَ لِأَحَدٍ وِلَايَةُ الْجَبْرِ عَلَيْهِ إلَّا لِضَرُورَةٍ وَلَا لِأَحَدٍ وِلَايَةُ الْمَنْعِ عَنْهُ وَإِنْ كَانَ يَتَضَرَّرُ بِهِ إلَّا إذَا تَعَلَّقَ بِهِ حَقُّ الْغَيْرِ فَيُمْنَعُ عَنْ التَّصَرُّفِ مِنْ غَيْرِ رِضَا صَاحِبِ الْحَقِّ وَغَيْرُ الْمَالِكِ لَا يَكُونُ لَهُ التَّصَرُّفُ فِي مِلْكِهِ مِنْ غَيْرِ إذْنِهِ وَرِضَاهُ إلَّا لِضَرُورَةٍ وَكَذَلِكَ حُكْمُ الْحَقِّ الثَّابِتِ فِي الْمَحِلِّ عَرَفَ هَذَا فَنَقُولُ لِلْمَالِكِ أَنْ يَتَصَرَّفَ فِي مِلْكِهِ أَيَّ تَصَرُّفٍ شَاءَ سَوَاءٌ كَانَ تَصَرُّفًا يَتَعَدَّى ضَرَرُهُ إلَى غَيْرِهِ أَوْ لَا يَتَعَدَّى.
العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامدية (2/ 18):
"قال علمائنا :أب وابن ‌يكتسبان ‌في صنعة واحدة ولم يكن لهما شيء ثم اجتمع لهما مال يكون كله للأب إذا كان الابن في عياله فهو مشروط كما يعلم من عباراتهم بشروط منها اتحاد الصنعة وعدم مال سابق لهما وكون الابن في عيال أبيه فإذا عدم واحد منها لا يكون كسب الابن للأب.

سید نوید اللہ

دارالافتاء،جامعۃ الرشید

06/ربیع الثانی1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید نوید اللہ

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب