021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
شوہر کا رہائش اور لباس نہ دینا اور بیوی کا بیرون ملک ملازمت کے لیے جانا
78175نان نفقہ کے مسائلبیوی کا نان نفقہ اور سکنہ ) رہائش (کے مسائل

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ  ایک خاتون کی شادی ہوئی۔ شادی کے بعد 6 سال تک سسرال میں ایک بیڈ جتنی جگہ والے کمرے میں رہی، خرچے کی مد میں ساس کو رقم دی جاتی، پھر 6 سال بعد کرایے کے گھر میں شفٹ ہو گئے، کچن کا خرچہ تو شوہر چلاتے تھے، لیکن بیوی کے کپڑوں اور رہائش کا خرچہ وہ برداشت نہیں کرتا تھا، کرایہ کے گھر میں رہتے تھے تو بیوی ملازمت کر کے اپنے بچوں اور شوہر کے کپڑوں کا ہمیشہ  اور رہائش کا خرچہ اکثر کرتی تھی۔

اس کے بعد بیوی شوہر کی اجازت سے پاکستان سے باہر ایک اسلامی ملک میں اکیلے ٹیچر جاب کے لیے گئی جہاں اس کی حفاظت یقینی تھی، جس ادارے میں ملازمت اختیار کرتی وہ رہائش کی سہولت بھی دیتے ہیں، خاتون کے بھائی کا بھی وہیں ملازمت اختیار کرنے اور رہنے کا ارادہ تھا،  پھر شوہر اور شوہر کے دیگر رشتہ داروں جن میں شوہر کا بڑا بھائی اور بھابھی شامل ہیں، نے اس خاتون کو واپس پاکستان بلایا کہ سب ذمہ داری شوہر اٹھائیں گے، ائیرپورٹ لینے بھی گیا، اور تقریبا ایک ماہ ایک ساتھ گزرا، پھر رہائش کا اور دیگر مطالبات کرنے اور قانونی کاروائی کرنے کے ارادے پر خاندانی مسائل پیدا ہو چکے ہیں۔ باہر جانے سے 5 سال پہلے سے خاتون ایک مدرسے میں منتظمہ اور معلمہ کی حیثیت سے کام کررہی تھی جہاں سے رہائش اور بجلی ،پانی کے خرچ کے علاوہ معمولی وظیفہ دیا جارہا تھا جو کہ ناکافی تھا، جبکہ رہائش ملنے پر شوہر کا خاتون سے کوئی تعاون نہیں رہا، مدرسے والوں کی طرف سے مسائل اور رہائش نہ ہونے کی وجہ سے خاتون کا ملازمت کرنا ناگزیر ہے، کیونکہ شوہر رہائش کا انتظام کرنے کے لیے تیار نہیں ہے، بلکہ اب باہر ملک جانے کو بنیاد بناکر بیوی سے کہہ رہا ہے کہ تم میری اجازت کے بغیر گئی تھی، اب تمہارا کوئی مطالبہ نہیں مانا جائے گا، میں رہائش کا انتظام بھی نہیں کروں گا، یہیں مدرسے کے گھر میں رہائش برقرار رکھو۔

اب سوال یہ ہے کہ:-

(1)۔۔۔ کیا خاتون شوہر کی اجازت سے اکیلے دوسرے ملک نوکری کے لیے جاسکتی ہے جہاں اس کی حفاظت یقینی ہو؟

(2)۔۔۔ اگر شوہر رہائش اور  کپڑوں کی ضروریات اور جنسی ضروریات پوری نہ کرے تو کیا یہ خاتون علیحدگی کا مطالبہ کرسکتی ہے؟

(3)۔۔۔ مذکورہ خاتون اب دوبارہ پاکستان سے باہر کسی اسلامی ملک میں ٹیچر جاب کے لیے جانا چاہ رہی ہے؛ وہاں اس کے ساتھ کوئی محرم نہیں ہوگا، ہاسٹل میں دیگر استانیوں کے ساتھ رہائش ہوگی۔ کیا یہ جاسکتی ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

شادی کے بعد بیوی، بچوں کے نان نفقہ، لباس اور رہائش کا خرچہ برداشت کرنا اور بیوی کی طبعی ضرورت پوری کرنا شوہر پر لازم ہے۔ ان میں کمی کوتاہی کرنا جائز نہیں، اس سے شوہر سخت گناہ گار ہوگا۔ اگر مذکورہ تفصیل درست ہے اور آپ کا شوہر واقعتا آپ کی رہائش اور لباس کا خرچہ برداشت نہیں کرتا تو اس کے لیے ایسا کرنا ہرگز جائز نہیں، اس پر لازم ہے کہ آپ کی رہائش اور لباس کا انتظام کرے۔      

اس تمہید کے بعد آپ کے سوالات کے جوابات درجِ ذیل ہیں:-

(1)۔۔۔ اللہ تعالیٰ نے فطری طور پر مرد اور عورت کے درمیان ذمہ داریوں کی تقسیم کردی ہے، دونوں کا دائرۂ کار متعین کردیا ہے، اور ذمہ داریوں کی اسی فطری تقسیم سے توازن اور تناسب کے ساتھ ان کے باہمی حقوق کا تعین بھی کردیا ہے۔ نسلِ انسانی کی نشو ونما کے لیے اللہ تعالیٰ نے مرد اور عورت کے ملاپ کو ذریعہ بنایا، لیکن اس میں ہر ایک کی ذمہ داریاں الگ الگ متعین فرمائیں، عورت کے ذمے بچے کا بوجھ پیٹ میں اٹھانا، پیدائش کے بعد اس کو گود لینا اور اس کی پرورش کرنا ہے، جبکہ مرد کی ذمے بچے اور اس کی ماں دونوں کی حفاظت کرنا، ان کا نان نفقہ برداشت کرنا اور ان کے لیے محنت مزدوری کرنا ہے۔ اس وجہ سے شریعت بلاوجہ عورت کے لیے ایسی ملازمت اور کاروبار جس میں گھر سے باہر نکلنا پڑے، کی حوصلہ افزائی نہیں کرتی، البتہ اگر کوئی خاتون مجبور ہو اور اس کو کما کر دینے والا کوئی نہ ہو تو ایسی مجبوری کی صورت میں شرعی شرائط (حجاب کی پابندی، مردوں کے ساتھ اختلاط سے اجتناب، والد یا شوہر کی اجازت، بچوں اور اہلِ خانہ کے حقوق پامال نہ ہونا، محرم کے بغیر مسافتِ سفر سے زیادہ سفر نہ کرنا اور مستقل گھر سے دور اکیلی نہ رہنا) کا خیال رکھتے ہوئے کوئی جائز کام کرنے کی گنجائش ہوگی، اگر ان شرائط کا خیال نہیں رکھا جائے گا تو  ملازمت کے لیے جانا جائز نہیں ہوگا۔  

صورتِ مسئولہ میں اگر واقعتا آپ کا شوہر آپ کی رہائش اور لباس کا انتظام نہیں کر رہا تھا اور اس کے کہنے پر آپ بیرون ملک اکیلے ملازمت کے لیے گئی تھی تو اس کا رہائش اور لباس کا انتظام نہ کرنا، آپ کو بیرون ملک ملازمت کے لیے بھیجنا اور آپ کا اکیلے ملازمت کے لیے جانا، یہ سب جائز نہیں تھا۔ آپ دونوں پر لازم ہے کہ اس پر توبہ و استغفار کریں،آاور ئندہ ایسا کرنے سے اجتناب کریں۔ آپ کے شوہر کے لیے یہ جائز نہیں کہ آپ کو ملازمت پر مجبور کرے، اس پر مناسب رہائش کا انتظام کرنا اور آپ دونوں کی حیثیت کے مطابق لباس کا انتظام کرنا لازم ہے، اگر وہ اپنی یہ ذمہ داریاں ادا نہیں کرے گا تو سخت گناہ گار ہوگا۔

(2)۔۔۔ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے لباس اور رہائش کا انتظام نہیں کرتا اور اس کی جنسی ضرورت بھی پوری نہیں کرتا تو پہلے بیوی خود اس سے بات کرے، اگر کوئی رنجش یا غلط فہمی ہو تو اس کو دور کرلے، اگر معاملات درست ہوجائیں تو بہت بہتر، ورنہ پھر دونوں خاندان کے سمجھدار اور بردبار بڑے ان کے درمیان صلح کی کوشش کریں اور شوہر کو سمجھائیں، اگر اس کے بعد بھی شوہر بیوی کے حقوق ادا کرنے کے لیے تیار نہ ہو تو پھر بیوی اس سے علیحدگی کا مطالبہ کرسکتی ہے۔   

(3)۔۔۔ سوال (1) کے جواب میں ذکر کردہ تفصیل کے مطابق مذکورہ خاتون کے لیے بیرون ملک اکیلے ملازمت کے لیے جانا جائز نہیں۔ شوہر پر لازم ہے کہ وہ اپنی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے عورت کے نان نفقہ، لباس اور رہائش کا مناسب انتظام کرے اور عورت پر لازم ہے کہ وہ شوہر کی خدمت اور فرماں برداری کرے، اس کے گھر کی حفاظت کرے اور بچوں کی پرورش کرے۔ لیکن اگر شوہر اپنی ذمہ داری ادا نہ کرے اور بیوی کمانے پر مجبور ہو تو حتی الامکان کوئی ایسا کام تلاش کرے جو گھر بیٹھ کر کرسکے، اگر ایسا  کام نہ ملے اورمجبورا  گھر سے باہر جانا پڑے تو مندرجہ ذیل شرائط کے ساتھ ملازمت کرنے کی گنجائش ہوگی:- 

  1. راستے میں آتے جاتے ہوئے، اور دورانِ ملازمت شرعی پردے کا اہتمام کرے۔
  2. بناؤ سنگھار نہ کرے اور خوشبو نہ لگائے۔
  3. راستے میں آتے جاتے ہوئے، اور دورانِ ملازمت نامحرم کے سامنے بلاضرورت آنے اور بات چیت سے حتی الامکان اجتناب کرے، اور جب بات چیت کی ضرورت ہو تو حتی الامکان آواز کی نزاکت ولطافت کو ختم کرے اور کسی قسم کی بداخلاقی کے بغیر بتکلف پھیکے انداز میں بات چیت کرے۔
  4. مسافتِ سفر (78 کلومیٹر) یا اس سے زیادہ محرم کے بغیر سفر نہ کرے۔
  5. شوہر کی اجازت ہو۔
  6. بچوں اور اہلِ خانہ کے شرعی حقوق پامال نہ ہوں۔
حوالہ جات
القرآن الکریم:
{وَإِنِ امْرَأَةٌ خَافَتْ مِنْ بَعْلِهَا نُشُوزًا أَوْ إِعْرَاضًا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَنْ يُصْلِحَا بَيْنَهُمَا صُلْحًا وَالصُّلْحُ خَيْرٌ وَأُحْضِرَتِ الْأَنْفُسُ الشُّحَّ وَإِنْ تُحْسِنُوا وَتَتَّقُوا فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا (128) وَلَنْ تَسْتَطِيعُوا أَنْ تَعْدِلُوا بَيْنَ النِّسَاءِ وَلَوْ حَرَصْتُمْ فَلَا تَمِيلُوا كُلَّ الْمَيْلِ فَتَذَرُوهَا كَالْمُعَلَّقَةِ وَإِنْ تُصْلِحُوا وَتَتَّقُوا فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ غَفُورًا رَحِيمًا (129) وَإِنْ يَتَفَرَّقَا يُغْنِ اللَّهُ كُلًّا مِنْ سَعَتِهِ وَكَانَ اللَّهُ وَاسِعًا حَكِيمًا } [النساء: 128 - 130].
{وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ سَرِّحُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ وَلَا تُمْسِكُوهُنَّ ضِرَارًا لِتَعْتَدُوا وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ وَلَا تَتَّخِذُوا آيَاتِ اللَّهِ هُزُوًا وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَمَا أَنْزَلَ عَلَيْكُمْ مِنَ الْكِتَابِ وَالْحِكْمَةِ يَعِظُكُمْ بِهِ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ } [البقرة: 231].
صحيح مسلم (2/ 977):
باب سفر المرأة مع محرم إلى حج وغيره:
وحدثنا أبو بكر بن أبي شيبة وأبو كريب جميعا عن أبي معاوية قال أبو كريب حدثنا أبو معاوية عن الأعمش عن أبي صالح عن أبي سعيد الخدري قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا يحل لامرأة تؤمن بالله واليوم الآخر أن تسافر سفرا يكون ثلاثة أيام فصاعدا إلا ومعها أبوها أو ابنها أو زوجها أو أخوها أو ذو محرم منها.
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة وزهير بن حرب كلاهما عن سفيان قال أبو بكر حدثنا سفيان بن عيينة حدثنا عمرو بن دينار عن أبي معبد قال سمعت بن عباس يقول: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يخطب يقول: لا يخلون رجل بامرأة إلا ومعها ذو محرم، ولا تسافر المرأة إلا مع ذي محرم، فقام رجل، فقال: يا رسول الله! إن امرأتي خرجت حاجة وإني اكتتبت في غزوة كذا وكذا، قال: انطلق، فحج مع امرأتك.
فتح الملهم شرح صحیح مسلم (6/492):
(انطلق، فحج مع امرأتك) فیه تقدیم الأهم من الأمور المتعارضة؛ لأنه لما تعارض سفره في الغزو وفي الحج معها، رجح الحج معها؛ لأن الغزو یقوم غیره فیه مقامه عنه،  بخلاف الحج معها.
بحوث في قضایا فقهیة معاصرة (1/338-337):
7- سفر المرأة بغیر محرم:
أخرج مسلم عن أبي سعید الخدري رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلی الله علیه وسلم: "لاتسافر المرأة فوق ثلاث إلا ومعها زوجها أو ذو رحم محرم منها".
هذا الحکم الصریح قد أخذ به جمهور الفقهاء، حتی أنهم لم یجوزوا لها أن تسافر بدون محرم لضرورة الحج. وإن الدراسة والعمل في البلاد الأجنبیة لیس من ضرورة النساء المسلمات في شیئ؛ فإن الشریعة لم تأذن للمرأة بالخروج من دارها إلا لحاجة ملحة، وقد ألزمت أباها أو زوجها بأن یکفل لها جمیع حاجاتها المالیة، فلیس لها أن تسافر بغیر محرم لمثل هذه الحوائج.
أما إذا کانت المرأة لیس لها زوج، أو أب، أوغیرهما من أقاربها الذین یکفلون لها بالمعیشة، ولیس عندها من المال ما یسد حاجتها، فحینئذٍ یجوز لها أن تخرج للاکتساب بقدر الضرورة ملتزمة بأحکام الحجاب، فیکفي لها في مثل هذه الحال أن تکتسب في وطنها، ولا حاجة لها إلی السفر إلی البلاد الأجنبیة، ولو لم تجد بدا من السفر في وطنها من بلد إلی آخر، ولم تجد أحدا من محارمها، ففي مثل هذه الحالة فقط یسع لها أن تأخذ بمذهب مالك والشافعي، حیث جوزوا لها السفر مع النساء المسلمات الثقات.
8- إقامة النساء بمفردهن:
قد ذکرنا في الجواب عن السؤال السابع أن النسوة المسلمات لاینبغي لهن السفر إلی بلاد غیر المسلمین للدراسة أو الاکتساب. وأما إذا کانت المرأة قد توطنت أحدی هذه البلاد مع محارمها، ثم بقیت مفردة لموت محارمها أو انتقالهم من ذلك المکان لسبب ما، فإنه لا مانع لها من الإقامة بمفردها، ما دامت ملتزمة بأحکام الشرع في الحجاب. 
الهداية، ط: رحمانیة (2/ 444-441):
قال: (النفقة واجبة للزوجة على زوجها مسلمة كانت أو كافرة إذا سلمت نفسها إلى منزله، فعليه نفقتها وكسوتها وسكناها) والأصل في ذلك قوله تعالى {لينفق ذو سعة من سعته}، وقوله تعالى { وعلى المولود له رزقهن وكسوتهن بالمعروف }، وقوله عليه الصلاة والسلام في حديث حجة الوداع "ولهن عليكم رزقهن وكسوتهن بالمعروف"، ولأن النفقة جزاء الاحتباس، وكل من كان محبوسا بحق مقصود لغيره كانت نفقته عليه، أصله القاضي والعامل في الصدقات، وهذه الدلائل لا فصل فيها، فتستوي فيها المسلمة والكافرة( ويعتبر في ذلك حالهما جميعا) قال العبد الضعيف: وهذا اختيار الخصاف، وعليه الفتوى، وتفسيره أنهما إذا كانا موسرين تجب نفقة اليسار، وإن كانا معسرين فنفقة الإعسار، وإن كانت معسرة والزوج موسرا فنفقتها دون نفقة الموسرات وفوق نفقة المعسرات، وقال الکرخي رحمه الله يعتبر حال الزوج، وهو قول الشافعي رحمه الله؛ لقوله تعالى{ لينفق ذو سعة من سعته }.  وجه الأول قوله عليه الصلاة والسلام لهند امرأة أبي سفيان "خذي من مال زوجك ما يكفيك وولدك بالمعروف" اعتبر حالها، وهو الفقه؛ فإن النفقة تجب بطريق الكفاية، والفقيرة لا تفتقر إلى كفاية الموسرات، فلا معنى للزيادة،  وأما النص فنحن نقول بموجبه أنه يخاطب بقدر وسعه، والباقي دين في ذمته، ومعنى قوله "بالمعروف" الوسط، وهو الواجب، وبه يتبين أنه لا معنى للتقدير كما ذهب إليه الشافعي رحمه الله أنه على الموسر مدان وعلى المعسر مد وعلى المتوسط مد ونصف مد؛ لأن ما يوجب كفاية لا يتقدر شرعا في نفسه……………. (وعلى الزوج أن يسكنها في دار مفردة ليس فيها أحد من أهله، إلا أن تختار ذلك)؛ لأن السكنى من كفايتها، فتجب لها كالنفقة، وقد أوجبه الله تعالى مقرونا بالنفقة، وإذا أوجب حقا لها ليس له أن يشرك غيرها فيه؛ لأنها تتضرر به، فإنها لا تأمن على متاعها، ويمنعها ذلك عن المعاشرة مع زوجها ومن الاستمتاع، إلا أن تختار؛ لأنها رضيت بانتقاص حقها. 
أحکام القرآن-للتهانوی-( 3/474-471):
وبالجملة فاتفقت مذاهب الفقهاء وجمهور الأمة علی أنه لايجوز للنساء الشواب کشف الوجوه والأکف بين الأجانب،  ويستثنی منه العجائز لقوله تعالیٰ:"القواعد من النساء"، الآية، والضرورات مستثناة فی الجميع بالإجماع. فلم يبق للحجاب المشروع إلا الدرجتان الأوليتان:
(1) الأولیٰ القرار فی البيوت وحجاب الأشخاص، وهو الأصل المطلوب.  (2) والثانية خروجهن لحوائجهن مستترات بالبراقع والجلابيب وهو الرخصة للحاجة.
ولاشك أن کلتا الدرجتين منه مشروعتان، غير أن الغرض من الحجاب لما کان سد ذرائع الفتنة، وفی خروجهن من البيوت ولو للحوائج والضرورات کان مظنة فتنة، شرط عليهن الله ورسوله صلی الله عليه وسلم شروطاً يجب عليهن التزامها عند الخروج: -
1.أن یترکن الطیب ولباس الزینة عند الخروج، بل یخرجن وهن تفلات، کما مر فی کثیر من روایات الحدیث مما ذکرنا.
2.أن لايتحلين حلية فيها جرس يصوت بنفسه، کما فی حديث رقم42.
3.أن لايضربن بأرجلهن ليصوت الخلخال وأمثاله من حليهن، کما هو منصوص القرآن.
4.أن لا يتبخترن فی المشية کيلا تکون سبباً للفتنة، کما مر فی حديث رقم15  .
5.أن لا تمشین فی وسط الطریق، بل حواشیها، کما فی حدیث رقم38.
6.أن يدنين عليهن من جلابیبهن بحیث لایظهر شئ منهن الا عیناً واحدةً لرؤیة الطریق، کما مر من تفسیر ابن عباس لهذه الآیة.
 
7.أن لایخرجن إلا بإذن أزواجهن، کما فی حدیث رقم 37 .
8.أن لایتکلمن أحداً إلا بإذن أزواجهن، کما فی حدیث رقم50.
9.وإذا تکلمن أحداً من الأجانب عند الضرورة فلایخضعن بالقول فیطمع  
الذي في قلبه مرض، کما هو منصوص الکتاب.
10 .   وأن يغضضن أبصارهن عن الأجانب عند الخروج.
 .11أن لایلجن فی مزاحم الرجال، کمایستفاد من حدیث ابن عمر رضی الله عنه، لو ترکنا هذا الباب للنساء! (رقم25).
فهذه أحد عشر شرطاً وأمثالها، یجب علی المرأة التزامها عند خروجها من البیت للحوائج         والضروریات، فحیث فقدت الشروط منعن من الخروج أصلًا.

     عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

  17/ربیع الثانی/1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب