021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
فائلوں کے کاروبار میں زکوة کی ادائیگی کا حساب
78246زکوة کابیانان چیزوں کا بیان جن میں زکوة لازم ہوتی ہے اور جن میں نہیں ہوتی

سوال

فائلوں کے کاروبار میں  زکوة کس حساب سے ادا کی جائے گی؟ اور کتنی زکوة ادا کرنا ہو گی؟ اگرچہ ان فائلوں  کے پیچھے متعین زمین ہو یا نہ ہو۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

  مروجہ صورتِ حال کے مطابق فائلوں کے کاروبار میں زکوة  کی  درج ذیل چار صورتیں بنتی ہیں:

پہلی صورت: فائل کے پیچھے متعین زمین (خواه زمينی نقشہ بننے کی صورت میں یا ڈیجیٹل نقشہ کی مدد سے اوصاف اور محلِ وقوع معلوم ہونے کی صورت میں)موجود ہو اور فائل اس کی نمائندگی کرتی ہو تو اس صورت میں فائل کے پیچھے موجود پلاٹ کی مالیت کا اعتبار کیا جائے گااورزکوة کی ادائیگی کے دن مارکیٹ میں پلاٹ کی جتنی مالیت ہو گی اسی کے حساب سے زکوة واجب ہو گی، نیزایسی فائل آگےجس شخص کو بھی بیچی جائے گی اس پر اسی حساب سے زکوة  کی ادائیگی واجب ہو گی، بشرطیکہ اس نے وہ فائل یعنی پلاٹ تجارت کی نیت سے خریدا ہو۔

دوسری صورت: اس فائل کے پیچھے متعین زمین نہ ہو، بلکہ صرف ٹاؤن/سوسائٹی کا مجموعی رقبہ معلوم ہو تو اس صورت میں جس شخص نے کمپنی یا کمپنی کے  نمائندہ ڈیلرسے فائل خریدی ہو تو اس کی زکوة بھی پلاٹ کی  موجودہ مالیت کے حساب سے واجب ہو گی، کیونکہ اس صورت میں بھی صاحبین رحمہما اللہ کی موقف کے مطابق پلاٹ کی خریدوفروخت ہوئی ہے، اس لیے زکوة کی ادائیگی میں بھی پلاٹ کی قیمت کا اعتبار ہو گا، بشرطیکہ یہ فائل یعنی  پلاٹ آگے بیچنے کی نیت سے خریدی ہو۔

اگرچہ اس صورت میں یہ فائل پلاٹ کی  موجودہ مالیت  کااعتبار کرکے سداً للذریعہ (مفاسدجیسے سٹہ وغیرہ کا دروازہ بند کرنے کے لیے)  اضافی قیمت پر آگے بیچنا جائز نہیں، بلکہ جتنی قیمت میں فائل خریدی گئی ہو گی اسی قیمت کا اعتبار کیا جائے گا، جیسا کہ اس کی تفصیل  پہلے سوال کے جواب میں پیچھے گزر چکی ہے۔  

تیسری صورت: تیسری صورت یہ کہ ڈیلر نے کمپنی سے اوپن فائلیں خریدی ہوں تو اس صورت میں چونکہ اصولی طور پر پلاٹ کی خریدوفروخت نہیں ہوتی، بلکہ محض ایک حق کی خریدوفروخت ہوتی ہے، جو کہ شرعی اعتبار سے باطل اور کالعدم ہے، لہذا اس خریدوفروخت کا شرعاً اعتبار نہ ہونے کی وجہ سے کمپنی کو دی گئی رقم کی حیثیت قرض کی ہو گی، جس کی ادائیگی کمپنی کے ذمہ لازم ہے اور ان فائلوں کی حیثیت قرض کی رسید کی ہو گی، اگرچہ کمپنی یہ رقم واپس نہیں کرتی، لیکن ڈیلر کے پاس اس رقم کی وصولی یابی  کا راستہ موجود ہے، وہ اس طرح  کہ اگر ڈیلر  اس فائل کے ذریعہ کمپنی سے پلاٹ خریدے گا تو کمپنی فائل کی قیمت کے برابر پلاٹ کی قیمت میں سے کم کرکے اس سے بقیہ قیمت وصول کرے گی، اسی طرح اگر کسی شخص سے کہے کہ یہ فائلیں مجھ سے لے لو اور اتنی رقم مجھے دے دو، دوسرا شخص فائلیں لے کر ڈیلر کو اتنی رقم ادا کر دے تو ڈیلر کا جو قرض کمپنی کے ذمہ واجب تھا اب دوسرے نمبر پر فائلیں لینے والا شخص اس  رقم کا مستحق بن جائے گا (اس کو فقہی اصطلاح میں حوالہ کا نام دیا جاتا ہے) اور پہلے ڈیلر کو اتنی رقم موصول ہو جائے گی، لہذا جس شخص کے پاس بھی یہ فائلیں موجود ہوں گی اس پر فائلوں کی اصل قیمت (جس قیمت پر کمپنی سے فائلیں خریدی گئی تھیں)کے حساب سے زکوة واجب ہو گی جتنی رقم کے عوض اس نے یہ فائلیں خریدی ہو گی۔

چوتھی صورت: چوتھی صورت کمیشن ایجنٹ کی ہے، پیچھے ذکر کی گئی تینوں صورتوں میں سے کسی بھی صورت میں جب کوئی ڈیلر کمیشن ایجنٹ بن کر فائلیں لیتا ہے تو (جیسا کہ پہلے سوال کے جواب میں ذکر کیا گیا) ایسی صورت میں چونکہ وہ زمین کا مالک نہیں  بنتا، بلکہ اس کے پاس فائلیں بطورِ امانت ہوتی ہیں، اس لیے زمین کا مالک نہ ہونے کی وجہ سےکمیشن ایجنٹ پر اس کی زکوة واجب نہیں ہو گی۔

حوالہ جات
  البناية شرح الهداية (8/ 170) دار الكتب العلمية ، بيروت:
(أما المسيل على السطح) . ش: أي أما حق المسيل على السطح م: (فهو نظير حق التعلي) ش: وبيع حق التعلي لا يجوز باتفاق الروايات م: (وعلى الأرض) ش: أي وحق المسيل إن كان على الأرض م: (مجهول لجهالة محله) ش: أي لجهالة قدر ما يشغله الماء م: (ووجه الفرق بين حق المرور) ش: حيث جاز بيعه على هذه الرواية م: (وحق التعلي) ش: أي وبين حق التعلي حيث لم يجز أصلا م: (على إحدى الروايتين) ش: متعلق بحق المرور لأن حق التعلي لا يجوز بيعه في جميع الروايات م: (أن حق التعلي يتعلق بعين لا تبقى وهو البناء) ش: فأخذ حكم ما لا يبقى م: (فأشبه المنافع) ش: لأنها لا بقاء لها.
فتح القدير للكمال ابن الهمام (6/ 428) دار الفكر،بيروت:
وحق التعلي ليس بمال؛ لأن المال عين يمكن إحرازها) وإمساكها ولا هو حق متعلق بالمال بل هو حق متعلق بالهواء وليس الهواء ما لا يباع والمبيع لا بد أن يكون أحدهما.
الدر المختار مع حاشية ابن عابدين (2/ 272) دار الفكر،بيروت:
(وما اشتراه لها) أي للتجارة (كان لها) لمقارنة النية لعقد التجارة (لا ما ورثه ونواه لها) لعدم العقد إلا إذا تصرف فيه أي ناويا فتجب الزكاة لاقتران النية بالعمل....... (لا زكاة في اللآلئ والجواهر) وإن ساوت ألفا اتفاقا (إلا أن تكون للتجارة) والأصل أن ما عدا  الحجرين والسوائم إنما يزكى بنية التجارة بشرط عدم المانع المؤدي إلى الثنى وشرط مقارنتها لعقد التجارة.
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 20) دار الكتب العلمية، بيروت:
وأما أموال التجارة فتقدير النصاب فيها بقيمتها من الدنانير والدراهم فلا شيء فيها ما لم تبلغ قيمتها مائتي درهم أو عشرين مثقالا من ذهب فتجب فيها الزكاة، وهذا قولعامة العلماء، وقال أصحاب الظواهر: ولا زكاة فيها أصلا........... (ولنا) ما روي عن سمرة بن جندب أنه قال: «كان رسول الله - صلى الله عليه وسلم - يأمرنا بإخراج الزكاة من الرقيق الذي كنا نعده للبيع» . وروي عن أبي ذر - رضي الله عنه - عن النبي - صلى الله عليه وسلم - أنه قال: «في البر صدقة» ، وقال - صلى الله عليه وسلم -: «هاتوا ربع عشر أموالكم» فإن قيل: الحديث ورد في نصاب الدراهم؛ لأنه قال في آخره: " من كل أربعين درهما درهم ".فالجواب أن أول الحديث عام وخصوص آخره يوجب سلب عموم أوله أو نحمل قوله من كل أربعين درهم على القيمة أي: من كل أربعين درهما من قيمتها درهم. وقال - صلى الله عليه وسلم -: «وأدوا زكاة أموالكم» من غير فصل بين مال ومال إلا ما خص بدليل، ولأن مال التجارة مال نام فاضل عن الحاجة الأصلية فيكون مال الزكاة كالسوائم.
وقد خرج الجواب عن قولهم: إن وجوب الزكاة عرف بالنص؛ لأنا قد روينا النص في الباب على أن أصل الوجوب عرف بالعقل وهو شكر لنعمة المال وشكر نعمة القدرة بإعانة العاجز إلا أن مقدار الواجب عرف بالسمع. وما ذكر مالك غير سديد؛ لأنه وجد سبب وجوب الزكاة وشرطه في كل حول فلا معنى لتخصيص الحول الأول بالوجوب
فيه كالسوائم والدراهم والدنانير، وسواء كان مال التجارة عروضا أو عقارا أو شيئا مما يكال أو يوزن؛ لأن الوجوب في أموال التجارة تعلق بالمعنى وهو المالية والقيمة، وهذه الأموال كلها في هذا المعنى جنس واحد.
الفقه الإسلامي وأدلته للزحيلي (3/ 1869) دار الفكر – سوريَّة:
والحنفية اشترطوا أربعة شروط:
الأول ـ بلوغ النصاب.
والثاني ـ حولان الحول.
والثالث ـ نية التجارة مصحوبة بعمل التجارة فعلاً؛ لأن مجرد النية لا يكفي.
والرابع ـ أن تكون الأموال صالحة لنية التجارة.

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی

17/ربيع الثانی 1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب