021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
انشورنس کی شرط پر قرض لینا
78263سود اور جوے کے مسائلانشورنس کے احکام

سوال

درج ذیل سوال دو جگہ بھیجا گیا تھا،دونوں جگہ سے مختلف جواب موصول ہوا ہے، آپ حضرات اپنی رائے دے دیجیے، بندہ اس حوالے سے تذبذب کا شکار ہے،دونوں جوابات بھی ساتھ ارسال کر رہا ہوں۔

میری کمپنی کی سود سے پاک ایک کار لون / قرض پالیسی ہے جس کے تحت کمپنی تقریباً پچیس لاکھ روپے ایک ملازم کو ادا کرتی ہے،یہ رقم ایک کراس چیک کی صورت میں یکمشت ملازم کو ادا کی جاتی ہے، ملازم اپنی مرضی سے کوئی بھی گاڑی خرید کر اپنے نام پر رجسٹر کرواتا ہے اور کمپنی کو تمام تفصیلات بھجوا دیتا ہے،اس کے بعد پھر ماہانہ اقساط میں چار سال میں کل رقم کا 75 فی صد کمپنی ماہانہ تنخواہ میں سے منہا کر کے وصول کرتی ہے، اس ماہانہ وصولی کے ساتھ کمپنی ہر ماہ کاٹی گئی رقم کے برابر رقم بھی کسی اور مد(مینٹیننس الاؤنس) میں واپس ادا کر دیتی ہے،اس طرح کمپنی ،قرض کا 75 فی صد حصہ واپس کر دیتی ہے جبکہ باقی پچیس فی صد ملازم کو پھر چار سال بعد یکمشت ادا کرنا پڑتا ہے۔ یہ کار لون / قرض ایک معاہدے کے تحت ادا کیا جاتا ہے جو ملازم اور کمپنی کے مابین ہوتا ہے، اس معاہدے کی ایک شرط کے مطابق ملازم کا نئی خریدی گئی گاڑی کو اپنے نام انشور کروانا ضروری ہے، یہ انشورنس بذریعہ کمپنی کے کروانا ضروری ہے جس کے تحت ملازم گاڑی کی تمام تفصیلات اپنی کمپنی کو فراہم کرتا ہے ،جس کے بعد کمپنی ایک روایتی/ سودی کمپنی سے ملازم کے نام پر گاڑی کی انشورنس کرواتی ہے، جس کا کمپنی کے ساتھ کچھ رعایتی نرخوں پر انشورنس کا معاہدہ ہے،کمپنی پریمیم کی مکمل رقم خود ادا کرتی ہے ،جس کو بعد میں ملازم کی تنخواہ میں سے کاٹا جاتا ہے، اس انشورنس رقم  کو پھر ملازم ایک الگ درخواست کے ذریعے کمپنی سے واپس وصول کر سکتا ہے، اس حوالے سے چند مزید تفصیلات بھی ذیل میں درج ہیں:

1.  اگرچہ اس پالیسی کو قرض / لون کا نام دیا گیا ہے تاہم یہ ایک کمپنی سپورٹڈ کار پالیسی ہے، کیوں کہ مینٹیننس الاؤنس کی مد میں ملنے والی ماہانہ رقم تب ہی ملتی ہے، اگر آپ نے قرض لیا ہو، ورنہ نہیں ملتی۔

2. ملازم کمپنی کی طرف سے دیئے گئے قرض کی رقم سے زائد کی گاڑی بھی لے سکتا ہے،اس معاملے میں ملازم کو مکمل اختیار ہے لیکن کمپنی انشورنس پریمیم کا صرف اتنا حصہ ادا کرتی ہے جو دیے گئے قرض کی رقم کے مساوی گاڑی کا بنتا ہے (مطلب آپ اتنی رقم ہی بعد از مکمل کٹوتی کے کمپنی سے واپس لے سکتے ہیں، زائد رقم واپس نہیں ملتی)۔

3. کمپنی سے پریمیم رقم کی واپس وصولی (بذریعہ درخواست) یا پھر انشورنس کلیم مکمل ملازم کی صوابدید پر ہے،اگر وہ یہ رقم واپسی نہ لے یا پھر کسی نقصان کی صورت میں انشورنس کمپنی کو آگاہ نہ کرنا چاہے تو کمپنی کی طرف سے کوئی پابندی نہیں ہے، پاپندی کا اطلاق صرف کمپنی کے ذریعے مختص انشورنس ادارے سے انشورنس کروانے تک محدود ہے۔

 4. کمپنی قرض حاصل کرنے والے تمام ملازمین کی گروپ لائف انشورنس بھی کرواتی ہے جس کا مقصد ملازم کی موت کی صورت میں قرض کا واپسی حصول ہے،اس کا پریمیم بھی کمپنی ہی ادا کرتی ہے اور ملازم کو اس حوالے سے کچھ نہیں کرنا پڑتا،یہ بات ملازم کے کمپنی کے ساتھ کیے گئے قرض معاہدے میں شامل نہیں ہے لیکن  بمطابق قرض پالیسی (جس میں قرض وغیرہ کی رقم اور طریقہ کار کی تفصیلات درج ہیں)٬  کمپنی یہ لازمی کرتی ہے۔

ان تمام تفصیلات کی روشنی میں سوال یہ ہے کہ کیا ملازم کا گاڑی کی خریداری کے لئے یہ قرض وصول کرنا جائز ہے؟یہ بات ذہن میں رہے کہ بندے نے اپنی وصیت میں واضح لکھا ہوا کہ موت کے بعد کمپنی سے ملنے والی رقوم کی مکمل شرعی تحقیقات کرنے کے بعد ہی اسے وصول / استعمال کے متعلق فیصلہ کیا جائے۔ اگر بندہ کسی طرح کار انشورنس کو کوشش کر کے کسی تکافل کمپنی سے کروا بھی لے تب بھی اس گروپ لائف انشورنس کا کچھ نہیں کر سکتا۔ کیا قرض کے جواز کے لیے دونوں صورتوں (گاڑی انشورنس اور لائف انشورنس) کا بمطابق شریعت ہونا ضروری ہے یا صرف بندہ کار انشورنس تک کا مکلف ہے،قرض معاہدے اور گاڑی کے انشورنس کے طریقہ کار کی تفصیلات سوال کے ساتھ منسلک ہیں۔ تفصیلی جواب دے کر ممنون فرمائیں۔جواب ای میل پر بھجوا دیں-

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سوال میں ذکر کردہ تفصیل کے مطابق ملازم کے لیے کمپنی سے قرض لینا جائز ہے،رہی بات کمپنی کی طرف سے انشورنس کی شرط کی تو اس حوالے سے تفصیل یہ ہے کہ کمپنی کی طرف سے قرض دیتے ہوئے انشورنس کی شرط لگانا جائز نہیں ہےلیکن چونکہ عقد قرض ان عقود میں سے ہے جو شرط فاسد سے فاسد نہیں ہوتے بلکہ وہ شرط فاسد لغو قرار دی جاتی ہے،لہٰذا ملازم کے لیے کمپنی سے قرض لینا جائز ہے،البتہ تفصیلی دستاویزات  دیکھنے کے بعد ہماری نظر میں انشورنس کا معاملہ ملازم اور انشورنس کمپنی کے درمیان ہے،لہٰذاملازم کے لیے حکومتی قانون اورکمپنی کےجبر کی وجہ سےانشورنس کروانے کی گنجائش ہے،لیکن کلیم کی صورت میں انشورنس کمپنی کی طرف سے ملنے والی رقم میں سے صرف جمع کردہ رقم کے بقدر رقم حلال ہوگی اور بقیہ رقم بلا نیت ثواب صدقہ کرنا ضروری ہوگا،البتہ لائف انشورنس کامعاملہ ملازم کی کمپنی،انشورنس کمپنی کے ساتھ خودکرتی ہےاوراس میں ملازم کو کوئی اختیار حاصل نہیں ہوتا،پریمیم وغیرہ ملازم کی کمپنی خود ادا کرتی ہے،اسی طرح کلیم کی صورت میں انشورنس کمپنی ملازم کے بجائے ملازم کی کمپنی کو کلیم ادا کرتی ہے، لہٰذا اس صورت میں ملازم کو گناہ نہیں ہوگا اور اس کے ورثاء کے لیے کمپنی سے یہ رقم وصول کرنا جائز ہوگا۔

حوالہ جات
العبرة في العقود للمقاصد والمعاني لا للألفاظ والمباني۔۔۔ والمراد بالمقاصد والمعاني: ما يشمل المقاصد التي تعينها القرائن اللفظية التي توجد في عقد فتكسبه حكم عقد آخر كما سيأتي قريبا في انعقاد الكفالة بلفظ الحوالة، وانعقاد الحوالة بلفظ الكفالة، إذا اشترط فيها براءة المديون عن المطالبة، أو عدم براءته.
وما يشمل المقاصد العرفية المرادة للناس في اصطلاح تخاطبهم، فإنها معتبرة في تعيين جهة العقود، فقد صرح الفقهاء بأنه يحمل كلام كل إنسان على لغته وعرفه وإن خالفت لغة الشرع وعرفه: (ر: رد المحتار، من الوقف عند الكلام على قولهم: وشرط الواقف كنص الشارع) .
(شرح القواعد الفقهية، 1/55، دار القلم)
 (وما لا يبطل بالشرط الفاسد القرض، والهبة، والصدقة، والنكاح، والطلاق، والخلع، والعتق، والرهن، والإيصاء، والوصية، والشركة، والمضاربة، والقضاء، والإمارة، والكفالة، والحوالة، والوكالة، والإقالة، والكتابة، وإذن العبد في التجارة ودعوة الولد، والصلح عن دم العمد، والجراحة وعقد الذمة وتعليق الرد بالعيب، أو بخيار الرؤية وعزل القاضي) هذه كلها لا تبطل بالشروط الفاسدة لما ذكرنا أن الشروط الفاسدة من باب الربا وأنه يختص بالمبادلة المالية، وهذه العقود ليست بمعاوضة مالية، فلا يؤثر فيها الشروط الفاسدة…
 (تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي،4/ 133)

محمد حمزہ سلیمان

دارالافتاء،جامعۃالرشید ،کراچی

  21/ربیع الثانی1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد حمزہ سلیمان بن محمد سلیمان

مفتیان

مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب