021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ایزی لوڈ کی فقہی تکییف اور کسٹمر سے اضافی رقم لینے کا حکم (جدیدفتوی)
78340اجارہ یعنی کرایہ داری اور ملازمت کے احکام و مسائلدلال اور ایجنٹ کے احکام

سوال

کچھ لوگ مجھ سے لوڈ کرواتے ہیں، مگر پیسے بعد میں ایک دن ،دو دن یا دس دن بعد ادا کرتے ہیں، میں ان سے کہتا ہوں کہ میں آپ سے دس یا پندرہ روپے اضافی وصول کروں گا، جس پر وہ لوگ راضی ہو جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمیں ایک سہولت ملی ہوئی ہے کہ بعض اوقات ہمارے پاس رقم نہیں ہوتی اور لوڈ مل جاتا ہے، جس کی ادائیگی بعد میں کرسکتے ہیں اور اس سہولت کے حصول کے لئے ہمیں 10 ، 15 روپے اضافی دینے پڑ رہے ہیں تو کوئی بات نہیں، ہم دینے کو تیار ہیں، آیا میرایہ دس پندرہ روپےزیادہ  وصول کرنا درست ہے یا نہیں؟نیز اگر لوگ نقد پیسے ادا کریں تو کیا میں کچھ رقم جیسے پانچ یا دس روپے اضافی کسٹمر سے وصول کر سکتا ہوں، کیونکہ کمپنی کی طرف سے ملنے والا کمیشن کم ہوتا ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

بطورِ تمہید جاننا چاہیے کہ  موبائل کمپنی کے نمائندے اور بعض دکاندار حضرات  سےمعلومات لینے پر درج ذیل معلومات حاصل ہوئیں:

الف: کالز، ایس ایم ایس اور انٹرنیٹ کی سروسز فراہم کرنے  کے لیے کمپنی بوسٹرز لگاتی ہے، ان میں سے ہر بوسٹر میں ایک مخصوص حد (Limit)تک کالز اور ایس ایم ایس  وصول کرنے (Receive) اور آگے بھیجنے(Forward) کی صلاحیت ہوتی ہے، اگر کالز وغیرہ اس حد سے تجاوز کر جائیں تو نیٹ ورک زیادہ مصروف ہونے کی وجہ سے کال نہیں ہو سکتی اور کسی بھی بوسٹر پر کالز کی تعداد زیادہ ہونے کی صورت میں اس کی تفصیل ہمارے کمپیوٹر پر آنا شروع ہو جاتی ہے اور ایسی صورت میں کمپنی کو بوسٹر کی صلاحیت (Capacity) بڑھانا  پڑتی ہے، نیز سسٹم برقرار رکھنے کے لیے کھمبے اور تاریں بھی لگائی جاتی ہیں اور کمپنی ایزی لوڈ کے ذریعہ یہی سسٹم استعمال کرنے پر کسٹمرز سے رقم وصول کرتی ہے۔

ب: ایزی لوڈ کے دکاندار کے لیے کمپنی کی طرف سے یہ ضروری ہےکہ وہ ایک مخصوص سم (Sim) اپنے نام رجسٹرڈ کروائے اور پھر اس سم میں کمپنی سے ایزی لوڈ کروائےاور اس ایزی لوڈ  کی  مکمل رقم ایڈوانس ادا کرنا پڑتی ہے، نیز یہ سم کال،ایس ایم ایس اور انٹرنیٹ کے لیے استعمال نہیں ہو سکتی، بلکہ یہ سم کسٹمرز کو صرف ایزی لوڈ کرنے کے لیے ہی استعمال کی جا سکتی ہے، البتہ اگر دکاندار یہ ایزی لوڈ اپنی کسی اور سم میں منتقل کرلے تو اس دوسری سم کے ذریعہ کال وغیرہ کی جا سکتی ہے، نیز یہ ایزی لوڈ دکاندار کو کچھ سستے داموں فراہم کیا جاتا ہے، مثلا: ہزار روپے کا ایزی لوڈ کروانے پر کمپنی کی طرف سے ایک ہزار پچیس (1025) روپے کا لوڈ بھیجا جاتا ہے۔

مذکورہ بالا تفصیل کی روشنی میں ایزی لوڈ کا معاملہ  شرعاً اجارة الاعيان (چیزیں جیسے گھر وغیرہ کرایہ پر دینا) کا معلوم ہوتا  ہے اور یہاں اجارہ کے دو معاملات علیحدہ علیحدہ ہوتے ہیں:

  1. پہلا معاملہ کمپنی اور دکاندار کے درمیان ہوتا ہے، جس میں دکاندار بڑی رقم مثلا پانچ ہزار یا اس سے کم وبیش رقم کے ذریعہ ایک مخصوص مدت تک کے لیے کمپنی سے اس کا سسٹم (جس میں بوسٹر، تاریں اور کھمبے وغیرہ شامل ہوتے ہیں) استعمال کرنے کی منفعت خریدتا ہے اور منفعت کی خریدوفروخت کو فقہی اصطلاح میں اجارہ کہا جاتا ہے، اس میں کمپنی کی طرف سے دکاندارکو کمیشن کے نام سے جو  زیادہ مقدار میں ایزی لوڈ بھیجا جاتا ہے اس کی شرعی حیثیت ڈسکاؤنٹ کی ہے، کیونکہ دکاندار کمپنی کو بڑی مقدار میں ایڈوانس رقم ادا کرتا ہے، جس کی وجہ سے کمپنی دکاندار کو مارکیٹ ریٹ سے کم قیمت پر منفعت فراہم کرتی ہے، جیسا کہ بیع کےمعاملے میں نقد رقم ادا کرنے پر فروخت کنندہ عام طور پر سستے داموں چیز بیچ دیتا ہے۔
  2. اجارے کا دوسرا معاملہ دکاندار اور گاہک کے درمیان ہوتا ہے، جس کو فقہی اصطلاح میں اجارة المستاجَر یا الاجارة من الباطن کہا جاتا ہے، جس کا مطلب اجارہ پر لی گئی چیز کو آگے اجارے پر دینا ہے، مذکورہ صورت میں بھی دکاندار کمپنی کا سسٹم اجارے پر لے کرآگے کسٹمر کو اجارے پر دیتا ہے، البتہ اس میں فقہائے حنفیہ رحمہم اللہ کے نزدیک اضافی اجرت لینے کے لیے ضروری ہے کہ اجارہ پر لی گئی چیز میں کوئی اضافہ کیا جائے یا یہ کہ اجرت کی جنس تبدیل کر لی جائے، یعنی اگر پہلا اجارہ روپے  کے ذریعہ کیا گیا تھا تو دوسرا اجارہ کسی اور کرنسی جیسے ریال وغیرہ کے ذریعہ کر لیا جائے تو اضافی اجرت لینا جائز ہے، ورنہ جائز نہیں۔ جبکہ ائمہ ثلاثہ رحمہم اللہ کے نزدیک دوسرے اجارہ میں موجِر کا مطلقاً (کرایہ پر لی گئی چیزمیں کوئی اضافہ اور اجرت کی جنس تبدیل کیے بغیر) اضافی اجرت لینا جائز ہے اور معاصر علمائے کرام نے ضرورت کے پیشِ نظر ائمہ ثلاثہ رحمہم اللہ کے مسلک پر عمل کرنے کی اجازت دی ہے، جیسا کہ المعاییر الشرعیہ میں مذکور ہے۔

واضح رہے کہ مروّجہ صورتِ حال کے مطابق دکاندار کو شرعاً کمیشن ایجنٹ قرار دینا مشکل ہے، كيونكہ کمپنی کی طرف سے دکاندار کو ایزی لوڈ فراہم کرنے کی شرط یہ ہے کہ دکاندار کمپنی کو ایزی لوڈ کی مکمل رقم ایڈوانس ادا کرے، حالانکہ جب وہ  کمیشن ایجنٹ بن کرکمپنی کی منفعت آگے کسٹمر کو بیچ رہا ہے تو اس سے ایڈوانس رقم لینے کا شرعاً کوئی جواز نہیں بنتا،اس لیے ایڈوانس رقم لینے کی شرط سے اجارہ کا معاملہ شرعاً ناجائز اور فاسد ہو جائے گا، لہذا تصحیحاً للعقد (معاملے کو درست قرار دینے کے لیے) اس معاملے کو اجارة الاشخاص کی بجائے اشیاء کے اجارےپر محمول کیا جائے گا اور ایڈوانس لی گئی رقم کی تکییف ایڈوانس اجرت سے کی جائے گی۔

مذکورہ بالا تمہید کے بعد آپ کےسوال کا جواب یہ ہے کہ ایزی لوڈ کرنے پر آپ کا کسٹمر سے فی نفسہ اضافی اجرت لینا جائز ہے، کیونکہ جب آپ نے کمپنی سے ایزی لوڈ (كمپنی كا سسٹم استعمال كرنے كی منفعت) خرید لیا تو آپ اس ایزی لوڈ کے مالک بن گئے، لہذا اس کے بعد آپ کا کسٹمر کو وہی منفعت اضافی اجرت پر دینا جائز ہے، البتہ اس میں درج ذیل شرائط کالحاظ رکھنا ضروری ہے:

الف: ایزی لوڈ کرنے پر بہت زیادہ رقم نہ وصول کی جائے، کیونکہ مارکیٹ ریٹ سےبہت زیادہ نفع اندوزی مروت اور اسلامی اخلاقیات کے خلاف ہے۔

ب: اضافی رقم کی مقدار فریقین کے علم میں ہو ، کیونکہ اجارہ کی اجرت فریقین کے علم میں ہونا ضروری ہے۔

حوالہ جات
 (قوله للمستأجر أن يؤجر المؤجر إلخ) أي ما استأجره بمثل الأجرة الأولى أو بأنقص، فلو بأكثر تصدق بالفضل إلا في مسألتين كما مر أول باب ما يجوز من الإجارة (قوله قيل وقبله) أي فالخلاف في الإجارة كالخلاف في البيع، فعندهما يجوز، وعند محمد لا يجوز، وقيل لا خلاف في الإجارة، وهذا في غير المنقول، فلو منقولا لم يجز قبل القبض كذا في التتارخانية (قوله من غير مؤجره) سواء كان مؤجره مالكا أو مستأجرا من المالك كما يفيده التعليل الآتي؛ لأن المستأجر من المالك مالك للمنفعة.
المحيط البرهاني في الفقه النعماني (7/ 429) دار الكتب العلمية، بيروت:
الفصل السابع: في إجارة المستأجر: قال محمد رحمه الله: وللمستأجر أن يؤاجر البيت المستأجر من غيره، فالأصل عندنا: أن المستأجر يملك الإجارة فيما لا يتفاوت الناس في الانتفاع به؛ وهذا لأن الإجارة لتمليك المنفعة والمستأجر في حق المنفعة قام مقام الآجر،
وكما صحت الإجارة من الآجر تصح من المستأجر أيضاً فإن أجره بأكثر مما استأجره به من جنس ذلك ولم يزد في الدار شيء ولا أجر معه شيئاً آخر من ماله مما يجوز عند الإجارة عليه، لا تطيب له الزيادة عند علمائنا رحمهم الله وعند الشافعي تطيب له الزيادة.
                                                                            الكافي في فقه الإمام أحمد (2/ 183) دار الكتب العلمية،بيروت:
وكذلك إجارة المستأجر، ويجوز أن يؤجرها للمؤجر وغيره، كما يجوز بيع المبيع للبائع وغيره، فإن أجرها قبل قبضها، لم يجز، ذكره القاضي؛ لأنها لم تدخل في ضمانه، فلم تجز إجارتها، كبيع الطعام قبل قبضه، ويحتمل الجواز؛ لأن المنافع لا تصير مقبوضة بقبض
العين، فلم يؤثر قبض العين فيها، ويحتمل أن تجوز إجارتها للمؤجر؛ لأنها في قبضه، ولا تجوز من غيره لعدم ذلك، وتجوز إجارتها بمثل الأجرة وزيادة.
البيان في مذهب الإمام الشافعي (7/ 354) أبو الحسين يحيى بن أبي الخير بن سالم العمراني اليمني الشافعي (المتوفى: 558هـ) دار المنهاج – جدة:
[مسألة: المستأجر يؤجر المؤجر وغيره]
إذا استأجر عينًا وقبضها.. فله أن يؤاجرها من المؤاجر، ومن غيره. إذا ثبت هذا: فيجوز أن يؤاجرها بمثل ما استأجرها به، وبأقل منه، وبأكثر منه. وقال أبو حنيفة: (لا يجوز أن يؤاجرها بأكثر منه إلا أن يكون قد أحدث فيها عمارة) . دليلنا: أن كل ما جاز أن يؤاجره بمثل ما استأجره.. جاز أن يؤاجره بأكثر منه، كما لو أحدث فيها عمارة.
المعايير الشرعية: (ص:245):
3/2/4: يجوز أن تتوارد عقود الإجارة لعدة أشخاص على منفعة معينة لعين واحدةومدة محدودة دون تعيين زمن معين لشخص معين، بل يحق لكل منهم استيفاء المنفعة في الزمن الذي يتم تخصيصه له عند الاستخدام تبعا للعرف وهذه الحالة  من صور المهايأة الزمانية في استيفاء المنفعة(Time Sharing).
المعايير الشرعية: (ص:246):
 4/2/4: يجو للمستأجر تشريك آخرين معه فيما ملكه من منافع بتمليكهم حصصا فيها قبل إيجارها من الباطن، فيصبحون معه شركاء في منفعة العين المستأجرة، وبعد تملكهم للمنفعة وتأخيرهم للعين من الباطن يستحق كل شريك حصة من الأجرة بقدر مشاركته.
المعايير الشرعية: (ص:243):
3/3: يجوز لمن استأجر عينا أن يؤجرها لغير المالك بمثل الأجرة أو بأقل أو بأكثر بأجرة حالة أومؤجلة (وهو ما يسمى التأجير من الباطن) مالم يشترط عليه المالك الامتناع عن الإيجار للغير أو الحصول على موافقة منه.

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی

یکم جمادی الاولی 1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب