021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
موت سے قبل مطلقہ کو گھر بلاکر بوسہ لینے سے رجوع اوروارثت کا حکم
78021طلاق کے احکامطلاق سے رجو ع کا بیان

سوال

میری سوتیلی ماں نے میرے والد سے لڑائی کے بعد طلاق مانگی اور میرے والد نے دوگواہوں کے سامنے اسے ایک خط دیا جس میں لکھا تھا کہ میں اسے طلاق دیتا ہوں،لیکن میرے والد نے منہ سے نہیں کہا کہ ایک بار طلاق اور وہ چلی گئی لیکن اس کامیرے والد سے تعلق تھا ،ہر روز میرے والد اسے واپس آنے کے لیے فون کرتے ،جب اسے معلوم ہوا کہ میرے والد کو کوویڈ 19 مثبت آیا ہے۔ 2 ماہ بعد وہ آگئی دومہینے وہ اپنے والد کے دوست کے گھر تھی کیونکہ یہاں اس کے گھر والوں میں سےکوئی نہیں تھا۔ اسی زمانے میں میرے والد کو کرونا ہو گیا اورتین راتوں تک والدہ والد کے ساتھ خدمت میں رہی اور  بیماری کی وجہ سےاگرچہ جنسی تعلق  اورایک بیڈ پر قیام  نہ ہوسکا،لیکن واپس آنے پر والد نے اسے گلےلگایااوربوسہ بھی لیاتھا ، 3 راتوں کے بعدوہ ہسپتال میں داخل ہوئے اور 15 دن بعد انتقال کر گئے۔ اب میرا سوال یہ ہے کہ طلاق موجود ہے یا نہیں؟ وہ میری والدہ ہیں اور ان کی میراث  میں حصہ لےسکتی ہیں?

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

 خط میں لکھ  دینے سےآپ کی سوتیلی ماں  کو ایک طلاق رجعی ہوگئی  تھی،البتہ چونکہ مسلسل بلانے کے بعدسوتیلی ماں  کےواپس آنے پر  آپ کے والدنےاسے گلے لگایا اور بوسہ بھی لیا تھا اور اس سے بیوی کی حیثیت سےخدمت بھی لی ہے،لہذا اس سے والد کا رجوع ثابت ہوگا اور وہ وفات کے وقت والد کی منکوحہ اور وارث بنے گی ،بشرطیکہ واپس آنے سے پہلے کے  دو ماہ میں تین ماہواریاں نہ گزری ہوں، ورنہ رجوع ثابت نہ ہوگا ۔

حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 398)
وتصح مع إكراه وهزل ولعب وخطإ (بنحو) متعلق باستدامة (رجعتك) ورددتك ومسكتك بلا نية لأنه صريح (و) بالفعل مع الكراهة  (بكل ما يوجب حرمة المصاهرة) كمس ولو منها اختلاسا،أو نائما، أو مكرها أو مجنونا، أو معتوها إن صدقها هو أو ورثته بعد موته جوهرة
(قوله: بكل ما يوجب حرمة المصاهرة) بدل من " بالفعل " بدل بعض من كل ح أي لأن من الفعل ما لا يوجب حرمة المصاهرة كالتزوج والوطء في الدبر ولذا عطفها المصنف على قوله بكل، فليس مراده الحصر بما يوجب حرمة المصاهرة فافهم، وباعتبار هذا العطف يصح كونه بدل مفصل من مجمل (قوله: كمس) أي بشهوة كما في المنح، ويفيده قوله: بما يوجب حرمة المصاهرة ح. قال في البحر: ودخل الوطء، والتقبيل بشهوة - على أي موضع كان، فما أو خدا، أو ذقنا، أو جبهة، أو رأسا -، والمس - بلا حائل أو بحائل يجد الحرارة معه بشهوة -، والنظر إلى داخل الفرج بشهوة - بأن كانت متكئة -، وخرج ما إذا كانت هذه الأفعال بغير شهوة، أو نظر إلى داخل الفرج بشهوة ولو إلى حلقة الدبر فإنه لا يكون مراجعا لكنه مكروه كما في الولوالجية. وفي القنية ويصير مراجعا بوقوع بصره على فرجها بشهوة من غير قصد المراجعة. اهـ. وفي المحيط: ويكره التقبيل واللمس بغير شهوة إذا لم يرد الرجعة. اهـ.
 (قوله: ولو منها اختلاسا) خلست الشيء خلسا من باب ضرب: اختطفته بسرعة على غفلة واختلسته كذلك مصباح.
قال في البحر: ولا فرق بين كون التقبيل والمس والنظر بشهوة منه، أو بشرط أن يصدقها سواء كان بتمكينه، أو فعلته اختلاسا، أو كان نائما أو مكرها، أو معتوها، أما إذا ادعته وأنكره لا تثبت الرجعة إلا (قوله: إن صدقها إلخ) قال في الفتح: هذا إذا صدقها الزوج في الشهوة، فإن أنكر لا تثبت الرجعة وكذا إن مات فصدقها الورثة، ولا تقبل البينة على الشهوة لأنها غيب كذا في الخلاصة. اهـ. قلت: لكن مر في محرمات النكاح متنا وشرحا: وإن ادعت الشهوة في تقبيله، أو تقبيلها ابنه وأنكرها الرجل فهو مصدق لا هي، إلا أن يقوم إليها منتشرة آلته فيعانقها لقرينة كذبه، أو يأخذ ثديها، أو يركب معها، أو يمسها على الفرج، أو يقبلها على الفم. اهـ.
ومقتضاه أنها لو مست فرجه، أو قبلته على الفم أن تصدق وإن كذبها وأنه تقبل البينة على الشهوة لأنها مما تعرف بالآثار كما صرح به هناك ويأتي تمامه فتأمل۔

نواب الدین

دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

۲۸ ربیع الاول۱۴۴۴ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

نواب الدین

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب