021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
محلہ کی مسجد میں جماعتِ ثانیہ اور اس میں شرکت کا حکم
78560نماز کا بیانامامت اور جماعت کے احکام

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس بارے میں کہ ضلع مردان، تحصیل تخت بھائی میں ہماری "مسجد الفلاح" کے نام سے مسجد ہے، جس کے امام اور مؤذن مقرر ہیں، مسجد کے ساتھ اپنا محلہ اور آس پاس دکانیں ہیں، جو مسجد کے متعین نمازی ہیں۔ کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ جن لوگوں سے جماعت فوت ہوئی ہوتی ہے، وہ مسجد کے اندر دوسری جماعت کرلیتے ہیں، عام طور سے جماعتِ ثانیہ کا امام راستے سے گزرنے والا کوئی شخص ہوتا ہے، محلے کا شخص جماعتِ ثانیہ کا امام نہیں ہوتا، لیکن محلے کے جن لوگوں سے جماعت فوت ہوتی ہے وہ بھی اس جماعتِ ثانیہ میں شریک ہوجاتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ:

(1)۔۔۔ ایسی مسجد میں دوسری جماعت کرانے کا کیا حکم ہے؟ اگر دوسری جماعت پہلی جماعت کے ہیئت پر نہ ہو، یعنی امام محراب میں کھڑا نہ ہو، اس سے ہٹ کر کھڑا ہو تو پھر کیا حکم ہے؟

(2)۔۔۔ اور اگر کوئی شرعی مسافر ہو تو کیا اس کے لیے ایسی مسجد میں جماعتِ ثانیہ کرانا جائز ہے؟

(3)۔۔۔ جو شخص دوسری جماعت کھڑی ہونے کے بعد آئے، کیا وہ اپنی نماز اکیلے پڑھے یا اس دوسری جماعت میں شامل ہوجایا کرے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

(1)۔ جس مسجد کے امام اور مؤذن مقرر ہوں اور اس کے معلوم و متعین نمازی ہوں وہ  مسجدِ محلہ ہے، اور مسجدِ محلہ میں جماعتِ ثانیہ کو فقہائے کرام رحمہم اللہ نے مکروہِ تحریمی فرمایا ہے، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں مذکورہ مسجد میں اہلِ محلہ کی جماعت کے بعد دوسری جماعت کرانا مکروہِ تحریمی یعنی ناجائز ہے۔ اگر دوسری جماعت کی ہیئت تبدیل ہو یعنی وہ محراب یا محراب کی سیدھ میں نہ ہو، بلکہ اس سے ہٹ کر ہو تو حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے قول کے مطابق یہ بھی مکروہ ہے، جبکہ امام ابویوسف رحمہ اللہ سے اس کا جواز منقول ہے، مگر فتویٰ امام ابو یوسف رحمہ اللہ کے قول پر نہیں؛ کیونکہ دوسری جماعت کی کراہت کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس سے لوگوں کے اندر پہلی جماعت کی اہمیت کم ہوتی ہے، جب ان کو امید ہوگی کہ دوسری جماعت بھی مل سکتی ہے تو وہ پہلی جماعت میں سستی کریں گے اور  اہتمام کے ساتھ نہیں آئیں گے۔ اور یہ وجہ دونوں صورتوں (دوسری جماعت پہلی جماعت کی ہیئت پر ہو یا اس کی ہیئت پر نہ ہو) میں پائی جاتی ہے۔ چنانچہ:-

حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمہ اللہ ہیئت تبدیل کرکے مسجدِ محلہ میں جماعتِ ثانیہ سے متعلق حضرت امام ابو حنیفہ اور حضرت امام ابو یوسف رحمہما اللہ کے اقوال پر تفصیلی کلام کرنے کے بعد فرماتے ہیں:  

 "یہ سب تحقیق ہے باعتبارِ حکم فی نفسہ کے، اور اگر مفاسد اس کے امام ابو یوسف  رحمہ اللہ کے رو برو پیش کیے جاتے تو یقینا کراہتِ شدیدہ کا حکم فرماتے"۔ (امداد الفتاویٰ:1/299)

حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمہ اللہ تعالیٰ بہشتی گوہر میں فرماتے ہیں:

   "تنبیہ: ہر چند کہ بعض لوگوں کا عمل امام ابو یوسف رحمہ اللہ کے قول پر ہے، لیکن امام صاحب رحمہ اللہ کا قول دلیل سے بھی قوی ہے اور اس وقت دینیات میں اور خصوص امرِ جماعت میں جو تہاون اور تکاسل ہو رہا ہے، اس کا مقتضیٰ بھی یہی ہے کہ باوجود تبدلِ ہیئت کراہت پر فتویٰ دیا جائے، ورنہ لوگ قصدا جماعتِ اولیٰ کو ترک کریں گے کہ ہم اپنی دوسری جماعت کرلیں گے۔" (بہشتی گوہر، ص:86)

علامہ ظفر احمد عثمانی رحمہ اللہ تعالیٰ امام ابویوسف رحمہ اللہ کا قول نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:

    "لیکن ہمارے مشایخ نے انتظامِ عوام کے لیے اس پر فتویٰ نہیں دیا، بلکہ مسجدِ محلہ میں جہاں امام و مؤذن مقرر ہوں، مطلقاً کراہت کا فتویٰ دیا ہے۔"  

   پھر اسی فتویٰ کے حاشیہ میں  فرماتے ہیں:

       "قلت: وهو الذي یمیل إلیه القلب لقوة دلیله؛ فإن علة الکراهة، وهي مظنة التهاون، موجودة بعد تغییر الهیئة أیضًا، والله أعلم۔" (امداد الاحکام:1/497)  

حضرت مفتی رشید احمد صاحب لدھیانوی رحمہ اللہ، حضرت امام ابو حنیفہ اور حضرت امام ابو یوسف رحمہما اللہ کے اقوال کی تحقیق کے بعد فرماتے ہیں:

"انقلابِ زمانہ دیکھیے کہ بدوں عذر گھروں پر جماعت کا عام دستور ہو رہا ہے، علماء، صلحاء، مقتدا ومرجعِ عوام وخواص بھی اس بدعت میں مبتلا ہیں، جن کا عمل دوسروں کے لیے بھی مشعلِ راہ ہے، اور دوسری جانب مساجد میں جماعتِ ثانیہ کا عام رواج ہوگیا ہے جس میں مندرجہ ذیل قبائح ہیں:

  1. حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضراتِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے طریق سے مخالفت۔
  2. جماعت کی تقلیل و تہاون۔
  3. جماعتِ اصلیہ کے ساتھ شرکت میں تکاسل اور اس کی عادت پڑجانے کا سبب۔
  4. جماعت سے تخلف کے گناہ کا اظہار۔
  5. افتراق کی صورت اور اس کا سبب۔  "

(ملاحظہ فرمائیں احسن الفتاویٰ:3/322 تا 328)

(2)۔۔ مذکورہ بالا حکم مقیم اور مسافر دونوں کے لیے ہے، لہٰذا مسافر کے لیے بھی ایسی مسجد میں جماعتِ ثانیہ مکروہ ہے۔

(3)۔۔۔ وہ اپنی نماز اکیلے پڑھے۔

حوالہ جات
المبسوط للشيباني (1/ 134):
قلت: أرأيت قوما فاتتهم الصلاة في جماعة، فدخلوا المسجد، وقد أقيم في ذلك المسجد وصلى فيه، فأراد القوم أن يصلوا فيه جماعة بأذان وإقامة؟ قال: أكره لهم ذلك، ولكن عليهم أن يصلوا وحدانا بغير أذان ولا إقامة؛ لأن أذان أهل المسجد وإقامتهم تجزيهم.  قلت: فإن أذنوا وأقاموا وصلوا جماعة؟ قال: صلاتهم تامة، وأحب إلى أن لا يفعلوا.
 قلت: أرأيت إن كان ذلك المسجد في طريق من طرق المسلمين، وصلى فيه قوم مسافرون بأذان وإقامة، ثم جاء قوم مسافرون سوى أولئك، فأرادوا أن يؤذنوا فيه ويقيموا ويصلوا جماعة؟
قال: لا بأس بذلك. قلت: لم؟ قال: لأن هذا المسجد لم يصل فيه أهله، إنما صلى فيه أهل الطريق، وإنما أكره ذلك إذا كان أهله قد صلوا فيه.
قلت: فإن صلى في هذا المسجد قوم مسافرون، ثم جاء أهل المسجد، فأذن مؤذنهم وأقام، فصلوا فيه، ثم جاء قوم مسافرون، فأرادوا أن يصلوا فيه جماعة بأذان وإقامة؟ قال: أكره لهم ذلك؛ لأن أهل المسجد قد صلوا فيه.
بدائع الصنائع (1/ 153):
ولو صلى في مسجد بأذان وإقامة، هل يكره له أن يؤذن ويقام فيه ثانيا؟ فهذا لا يخلو من أحد وجهين: إما إن كان مسجدا له أهل معلوم، أو لم يكن. فإن كان له أهل معلوم، فإن صلى فيه غير أهله بأذان وإقامة لا يكره لأهله أن يعيدوا الأذان والإقامة،  وإن صلى فيه أهله بأذان وإقامة أو بعض أهله يكره لغير أهله وللباقين من أهله أن يعيدوا الأذان والإقامة، وعند الشافعي لا يكره. وإن كان مسجدا ليس له أهل معلوم بأن كان على شوارع الطريق لا يكره تكرار الأذان والإقامة فيه.
وهذه المسألة بناء على مسألة أخرى، وهي أن تكرار الجماعة في مسجد واحد هل يكره؟ فهو على ما ذكرنا من التفصيل والاختلاف. وروي عن أبي يوسف أنه إنما يكره إذا كانت الجماعة الثانية كثيرة،  فأما إذا كانوا ثلاثة أو أربعة فقاموا في زاوية من زوايا المسجد وصلوا بجماعة، لا يكره.  وروي عن محمد أنه إنما يكره إذا كانت الثانية على سبيل التداعي والاجتماع، فأما إذا لم يكن فلا يكره..…… لنا ما روى عبد الرحمن بن أبي بكر عن أبيه رضي الله عنهما أن رسول الله  صلى الله عليه وسلم خرج من بيته ليصلح بين الأنصار لتشاجر بينهم، فرجع وقد صلی في المسجد بجماعة، فدخل رسول الله صلی الله علیه وسلم في منزل بعض أهله، فجمع أهله ، فصلی بهم جماعة، ولو لم یکره تکرار الجماعة في المسجد لما ترکها رسول الله صلی الله علیه وسلممع علمه بفضل الجماعة في المسجد. وروي عن أنس بن مالك رضي الله عنه أن أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم كانوا إذا فاتتهم الجماعة صلوا في المسجد فرادى. ولأن التكرار يؤدي إلى تقليل الجماعة؛ لأن الناس إذا علموا أنهم تفوتهم الجماعة، فيستعجلون، فتكثر الجماعة، وإذا علموا أنها لا تفوتهم يتأخرون، فتقل الجماعة، وتقليل الجماعة مكروه، بخلاف المساجد التي على قوارع الطرق؛ لأنها ليست لها أهل معروفون، فأداء الجماعة فيها مرة بعد أخرى لا يؤدي إلى تقليل الجماعات، وبخلاف ما إذا صلى فيه غير أهله؛ لأنه لا يؤدي إلى تقليل الجماعة؛ لأن أهل المسجد ينتظرون أذان المؤذن المعروف، فيحضرون حينئذ، ولأن حق المسجد لم يقض بعد؛ لأن قضاء حقه على أهله، ألا ترى أن المرمة ونصب الإمام والمؤذن عليهم، فكان عليهم قضاؤه، ولا عبرة بتقليل الجماعة الأولين؛ لأن ذلك مضاف إليهم حيث لم ينتظروا حضور أهل المسجد، بخلاف أهل المسجد؛ لأن انتظارهم ليس بواجب عليهم.
رد المحتار (1/ 395):
( وتكرار الجماعة ) …… وحينئذ فلو دخل جماعة المسجد بعدما صلى أهله فيه، فإنهم يصلون وحدانا وهو ظاهر الرواية، ظهيرية.  وفي آخر شرح المنية: وعن أبي حنيفة لو كانت الجماعة أكثر من ثلاثة يكره التكرار وإلا فلا.  وعن أبي يوسف إذا لم تكن على الهيئة الأولى لا تكره، وإلا تكره، وهو الصحيح، وبالعدول عن المحراب تختلف الهيئة، كذا في البزازية ا ه،  وفي التاترخانية عن الولوالجية، وبه نأخذ. وسيأتي في باب الإمامة إن شاء الله تعالى لهذه المسألة زيادة كلام.
الدر المختار (1/ 554-552):
ويكره تكرار الجماعة بأذان وإقامة في مسجد محلة، لا في مسجد طريق أو مسجد لا إمام له ولا مؤذن ( وأقلها اثنان ) واحد مع الإمام ولو مميزا في مسجد أو غيره….. الخ
رد المحتار (1/ 553-552):
مطلب في تكرار الجماعة في المسجد: قوله (ويكره) أي تحريما؛ لقول الكافي "لا يجوز"، والمجمع "لا يباح"، وشرح الجامع الصغير "إنه بدعة"، كما في رسالة السندي. قوله (بأذان وإقامة الخ) عبارته في الخزائن أجمع مما هنا، ونصها: يكره تكرار الجماعة في مسجد محلة بأذان وإقامة، إلا إذا صلى بهما فيه أولًا غير أهله أو أهله لكن بمخافتة الأذان. ولو كرر أهله بدونهما، أو كان مسجد طريق جاز إجماعا، كما في مسجد ليس له إمام ولا مؤذن ويصلي الناس فيه فوجا فوجا؛ فإن الأفضل أن يصلي كل فريق بأذان وإقامة على حدة، كما في أمالي قاضيخان اھ. ونحوه  في الدرر. والمراد بمسجد المحلة ما له إمام وجماعة معلومون، كما في الدرر وغيرها. قال في المنبع: والتقييد بالمسجد المختص بالمحلة احتراز من الشارع، وبالأذان الثاني احتراز عما إذا صلی في مسجد المحلة جماعة بغير أذان حيث يباح إجماعا اه. ثم قال في الاستدلال علی الإمام الشافعي النافي للكراهة ما نصه: ولنا أنه عليه الصلاة والسلام كان خرج ليصلح بين قوم فعاد إلى المسجد وقد صلى أهل المسجد، فرجع إلى منزله فجمع أهله وصلى، ولو جاز ذلك لما اختار الصلاة في بيته على الجماعة في المسجد، ولأن في الإطلاق هكذا تقليل الجماعة معنى؛ فإنهم لا يجتمعون إذا علموا أنها لا تفوتهم. وأما مسجد الشارع فالناس فيه سواء لا اختصاص له بفريق دون فريق ا ه، ومثله في البدائع وغيرها. ومقتضى هذا الاستدلال كراهة التكرار في مسجد المحلة ولو بدون أذان، ويؤيده ما في الظهيرية: لو دخل جماعة المسجد بعدما صلى فيه أهله يصلون وحدانًا، وهو ظاهر الرواية اه، وهذا مخالف لحكاية الإجماع المارة. …….  وقدمنا في باب الأذان عن آخر شرح المنية عن أبي يوسف أنه إذا لم تكن الجماعة على الهيئة الأولى لا تكره، وإلا تكره، وهو الصحيح، وبالعدول عن المحراب تختلف الهيئة، كذا في البزازية، انتهى.  

 عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

 دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

24/جمادی الاولیٰ/1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب