021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
آغاخانی کے ساتھ تعلقات قائم کرنا
78566جائز و ناجائزامور کا بیانکفار کے ساتھ معاملات کا بیان

سوال

میرا ایک دوست ایک سرکاری ادارے میں ملازمت کرتا ہے۔اس کا کھانا ،پینا اور رہنا سب کچھ اسی ادارے میں ہی ہوتا ہے۔اس ادارے میں اس بندے کے ساتھ ایک اور  ملازم جو کہ آغا خانی ہے، اس سے دوستی لگ گئی، یہ مسلمان بندہ اس آغا خانی کے بارے میں کہتا ہے کہ وہ بہت ہی اچھے اخلاق والا انسان ہے، اور میری اس سے بہت اچھی دوستی لگ گئی، کہ ہم دونوں وہاں ہمیشہ ساتھ کھاتے ،پیتے اور رہتے   ہیں، لیکن اس مسلمان ملازم کو پہلے پتہ نہیں تھا کہ اس کا دوست آغا خانی ہے، اب پتہ چلا کہ وہ آغا خانی ہے۔ لہذا علمائے کرام اس بارے میں کیا فرماتے ہیں؟ آغا خانی سےروز مرہ کے تعلقات،جیسے  کھانے ،پینے اوررہائش وغیرہ  رکھنے کا کیا حکم ہے،نیز آغاخانی کے ساتھ دوستی قائم رکھنا کیسا ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

غیر مسلموں اور گمراہ لوگوں کے ساتھ ضرورت کی حد تک  معاشرتی تعلقا ت رکھنا تو جائز ہے لیکن ان سے گہرے دوستانہ  تعلقات قائم کرنا ہرگز جائز نہیں ۔ قرآنِ پاک  کی بہت ساری آیات میں اس سے صاف الفاظ میں اور سخت منع کیا گیا ہے۔چنانچہ  حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

کفار کے ساتھ تین قسم کے معاملے ہوتے ہیں : موالات یعنی دوستی ۔ مدارات : یعنی ظاہری خوش خلقی - مواساة : یعنی احسان و نفع رسانی -موالات تو کسی حال میں جائز نہیں ۔ اور مدارات تین حالتوں میں درست ہے : ایک دفع ضرر کے واسطے ، دوسرے اس کافر کی مصلحت دینی یعنی توقع ہدایت کے واسطے ، تیسرے اکرام ضیف کے لیے ، اور اپنی مصلحت و منفعت مال و جان کے لیے درست نہیں ۔ اور مواسات کا حکم یہ ہے کہ اہل حرب کے ساتھ ناجائز ہے اور غیر اہل حرب کےساتھ جائز۔

حوالہ جات
قال اللہ تبارک وتعالی: لا يتخذ المؤمنون الكافرين أولياء من دون المؤمنين ومن يفعل ذلك فليس من اللہ في شيء إلا أن تتقوا منهم تقاة ويحذركم اللہ نفسه وإلى اللہ المصير.( آل عمران:28)
قال المفسر إسماعيل بن عمر بن كثير رحمہ اللہ تحت ھذہ الآیۃ: نهى اللہ تبارك وتعالى،عباده المؤمنين أن يوالوا الكافرين، وأن يتخذوهم أولياء يسرون إليهم بالمودة من دون المؤمنين، ثم توعد على ذلك فقال: ومن يفعل ذلك فليس من الله في شيء،أي: من يرتكب نهي اللہ في هذا فقد برئ من اللہ.( تفسير القرآن العظيم لابن کثیر)
قال جمع من العلماء رحمہم اللہ: لا بأس بأن يكون بين المسلم والذمی معاملہ ،اذا کان ممالا بد منہ.(الفتاوی الھندیۃ:5/427)
 (تفسیربیان القرآن:1/226)
n

محمد عمر الیاس

دارالافتاء جامعۃالرشید،کراچی

24 جمادی الاولی،1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد عمر بن محمد الیاس

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب