021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بینک میں بیمہ پالیسی کے شعبہ میں کام کرنا
78565سود اور جوے کے مسائلمختلف بینکوں اور جدید مالیاتی اداروں کے سود سے متعلق مسائل کا بیان

سوال

میں یو نایئٹڈ بینک میں ملازمت کرنا چاہتی ہوں،اس میں میرا کام بیمہ پالیسی کے لیے آنے والوں کے ضروری کوائف کی فائل بنا کر آگے دینی ہو گی۔کیا میرے لیے ایسی ملازمت جائز ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

بینکوں میں انشورنس اور تکافل دونوں طرح کی بیمہ پالیسی فراہم کی جاتی ہے۔پہلی قسم "سود "اور"جوے"پر مبنی ہے جس پر قرآنِ پاک اور احادیث مبارکہ میں سخت وعید آئی ہے ، جبکہ دوسری قسم "تکافل"  کی پالیسی ہے جس  پر اختلافِ رائے موجود ہے ،لیکن اسے بعض معتبر علماء کرام کی تصدیق حاصل ہے۔لہذا  اگر آپکا کام صرف انشورنس سے متعلق ہے تو آپ کی کل آمدن حرام ہے ۔اگر تکافل اور انشورنس  مخلوط ہے تو انشورنس کے کام کے عوض  ملنے  والی تنخواہ کا حصہ حرام ہے۔اور اگر صرف تکافل سے متعلق ہے تو بعض علماء کے فتوے کی وجہ سے آپ کے لیے  کام کرنے  کی گنجائش ہے   ۔

لیکن واضح رہے کہ عورت کو اللہ رب العزت نے گھر کی زینت، امور خانہ داری کی اصلاح ، والدین اور شوہر کی خدمت، اولاد کی صحیح پرورش اور دینی تربیت کے لیے پیدا کیا ہے ، یہی اس کی پیدائش کا اصل مقصدہے۔ شریعت مطہرہ نے عورت پر کسب معاش کی ذمہ داری نہیں ڈالی ہے ، بلکہ مردوں کو کسب معاش کا مکلف بنایا ہے، لہذا شادی تک لڑکیوں کا نان و نفقہ والد کے ذمے اور شادی کے بعد شوہر پر واجب ہے ، اس لیے کسی عورت کو اگر معاشی تنگی کا سامنا نہیں ہو ، تو محض معیارِزندگی بلند کرنے کے لیے گھر سے باہر نکل کر ملازمت کے لیے پیش قدمی کرنا شریعت کی نظر میں ناپسندیدہ ہے ۔لیکن اگر عورت کو معاشی تنگی کا سامنا ہو اور والد ، بھائی یا شوہر اس کی ذمہ داری اٹھانے سے قاصر ہو، تو ایسی مجبوری اور ضرورت شدیدہ  کے وقت درج ذیل شرائط کے ساتھ ملازمت کے لیے گھر سے باہر نکلنے کی گنجائش ہوگی :

  1. ملازمت کا کام فی نفسہ جائز کام ہو، ایسا کام نہ ہو، جو شرعاًنا جائز یاگناہ ہو۔
  2.  شرعی پردہ کی مکمل رعایت ہو۔
  3.  لباس پر کشش اور ایسا نہ ہو، جس سے جسم کا کوئی حصہ نمایاں ہوتا ہو۔
  4. عورت بناؤ سنگھار اور زیب وزینت کے ساتھ ، نیز خوشبو لگا کر نہ نکلے۔
  5.  ملازمت کرنے کی وجہ سے گھریلو امور میں لا پروائی نہ ہو۔
  6. کسی نا محرم مردسے خلوت کا خطرہ نہ ہو۔

اگر مذکورہ تمام شرائط ملازمت کرنے کی جگہ میں پائی جائیں ، تو وہاں کام کرنے کی گنجائش ہے ۔

حوالہ جات
روی الإمام مسلم رحمہ اللہ عن جابر رضی اللہ عنہ قال:لعن ‌رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم آكل الربا ومؤكله  وكاتبه وشاهديه وقال: هم سواء .(صحيح مسلم:رقم الحدیث1598)
قال العلامۃ ابن عابدین رحمہ اللہ: وسمي القمار قمارا ؛لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز ‌أن ‌يذهب ‌ماله إلى صاحبه، ويجوز ‌أن يستفيد مال صاحبه وهو حرام بالنص.( رد المحتار:9/77)
قال العلامۃ برهان الدين رحمہ اللہ: وهذا ‌؛لأن ‌القمار ‌مشتق من القمر الذي يزداد وينقص، سمي ‌القمار قماراً؛ ‌لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويستفيد مال صاحبه، فيزداد مال كل واحد منهما مرة وينتقص أخرى، فإذا كان المال مشروطاً من الجانبين كان قماراً، والقمار حرام، ولأن فيه تعليق تمليك المال بالخطر، وإنه لا يجوز.( المحيط البرهاني في الفقه النعماني:8/14)
قال العلامۃ الحصکفی  رحمہ اللہ: ولها ‌النفقة ‌بعد ‌المنع ولها السفر والخروج من بيت زوجها للحاجة.
(الدر المختارمع رد المحتار:3/145)
قال العلامۃ   ابن عابدین رحمہ اللہ:لأن ‌النساء ‌أمرن بالقرار في البيوت فكان مبنى حالهن على الستر.
وإليه أشار النبي صلى الله عليه وسلم  حيث قال :كيف يفلح قوم تملكهم امرأة.( رد المحتار:1/548)
قال جمع من العلماء رحمھم اللہ: وأما الإناث فليس للأب أن يؤاجرهن في عمل، أو خدمة........ ونفقة الإناث واجبة مطلقا على الآباء ما لم يتزوجن إذا لم يكن لهن مال.( الفتاوى الهندية:1/563)

محمد عمر الیاس

دارالافتاء جامعۃالرشید،کراچی

24جمادی الاولی،1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد عمر بن محمد الیاس

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب