021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
استصناع میں دکان کی مشترکہ بکنگ کروا کر ڈھانچہ کھڑا ہونے پر بیچنا
78626خرید و فروخت اور دیگر معاملات میں پابندی لگانے کے مسائلمتفرّق مسائل

سوال

ہم نے ایک بلڈر سے گراؤنڈ فلور کی ایک دکان خریدی، جو کہ سات سو سکوائر مربع فٹ تھی اور ، فی فٹ پچپن ہزار  روپےسکوائر مربع قیمت تھی، جس کی تقریباً نصف قیمت ہم نے ادا کی اور بقیہ نصف میں بلڈر نے شرکت کے طور پر اپنا حصہ رکھا،  ہمارے پاس ایک پلاٹ تھا، جس کی قیمت ایک کروڑ پینسٹھ لاکھ روپیہ تھی، ہم نے وہ پلاٹ دے کر تقریباً آدھی دکان میں شریک ہوئے ہیں۔بلڈر نے کہا جب دکان پر کچھ منافع آئے گا تو ہم دکان کوبیچ دیں گے اور حاصل ہونے والا نفع ہم تقسیم کر لیں گے، گراؤنڈ فلور کی دکانیں تقریباً چھ ماہ کے اندر بن جائے گی اوریہ دکان ڈھانچہ کھڑا ہونے کے بعد بیچی جائے گی، ، جبکہ اس کے اوپر مکمل پلازہ تیار ہونے میں وقت لگے گا، کیونکہ مکمل پلازہ آٹھ منزلوں پر مشتمل ہو گا، اس لیے ہم نے مشورہ کیا کہ  دکان کا ڈھانچہ کھڑا ہونے کے بعد جیسے ہی ہمیں نفع نظر آئے گا تو ہم اس کو فروخت کر دیں گے، سوال یہ ہے کہ کیا یہ صورت جائز ہے؟ اور کیا بلڈر واپس خود خریدنا چاہے تو کیا اس کی گنجائش ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مذکورہ صورت میں یہ استصناع (آرڈر پر چیز تیار کروانا) کا معاملہ ہے، کیونکہ فی الحال دکان کا کوئی وجود نہیں ہے، بلکہ بلڈر نے آپ کو تیار کرکے دینی ہے، اورآپ کا مشاع یعنی مشترکہ طور پر بلڈر(آرڈر پر چيزبنا كر دينے والا)  سے نصف دکان خریدنا شرعاً جائز ہے اور دكان بننے كے بعد آپ دونوں كے درميان اس میں شرکتِ ملک ثابت ہو گی، باقی سوال میں ذکرکیے گئے معاملہ کے درست ہونے کے لیے درج ذیل امور کو بھی مدِ نظر رکھنا ضروری ہے:

1۔ خریدی گئی چیز میں فریقین کی ملکیت کا تناسب طے ہونا چاہیے، یعنی یہ طے ہونا کہ اس دکان میں اتنے فیصد(Percentage) ملکیت (Ownership) فلاں شریک کی اور اتنے فیصد فلاں شریک کی ملکیت ہے۔

2۔ دکان فروخت ہونے پر جو شریک جتنے حصے کا مالک ہو گا وہ اسی حساب سے نفع اور نقصان کا حق دار ہو گا، لہذا اگر دونوں فریق آدھی آدھی دکان کے مالک ہیں تو نفع بھی آدھا آدھا ہی تقسیم ہو گا، اس میں کمی بیشی کی شرط لگانا شرعاً درست نہیں، کیونکہ یہ شرکتِ ملک ہے اور شرکتِ ملک میں نفع اور نقصان کا حساب اپنے ملکیتی حصہ کے مطابق ہی ہوتاہے۔

3۔شروع سے ہی یہ طے نہ کیا جائے کہ نفع(Profit) آنے پر دکان میں سے اپنا حصہ واپس اسی بلڈر کو فروخت کیا جائے گا، بلکہ فریقین کو اختیار ہونا چاہیے کہ وہ اپنا حصہ  بلڈر یا اس کے علاوہ جس کو چاہے فروخت کرے، البتہ  بلڈر کے علاوہ کسی اورشخص کو بیچنے کی صورت میں بلڈر کی رضامندی کا ہونا ضروری ہے، ورنہ بلڈر کو آپ کے حصہ پر شفعہ کرنے کا حق حاصل ہو گا۔

4۔استصناع کے معاملے میں بنوائی گئی چیز کو قبضہ کرنے سے  پہلے آگے بیچنا جائز نہیں، کیونکہ استصناع کے معاملے میں قبض سے پہلے ملکیت ثابت نہیں ہوتی۔ مذکورہ صورت میں چونکہ حقیقی قبضہ پلازہ مکمل ہونے کے بعد دیا جائے گا، اس لیے اس سے پہلے دکان فروخت کرنے کے لیے ضروری ہے کہ دکان کا ڈھانچہ تیار ہونے پر بلڈر آپ سے یہ کہہ دے کہ میں نے یہ دکان آپ کے سپرد کر دی، آپ اگر آگے بیچنا چاہیں تو بیچ سکتے ہیں، اس کو فقہائے کرام رحمہم اللہ کی اصطلاح میں تخلیہ (بغیر کسی مانع کے خریدار کو چیز میں تصرف کا مکمل اختیار دینا) کہا جاتا ہے، اس کے بعد نصف دکان آپ کے قبضہ، ملکیت اور ضمان میں سمجھی جائے گی، لہذا اس کے بعد اگر خدانخواستہ دکان گر گئی تو  آدھی دکان میں آپ کا نقصان شمار ہو گا۔اس طرح بلڈر کے دکان آپ کے سپرد کرنے کے بعد آپ دکان میں موجود اپنا  نصف حصہ آگے فروخت کر سکتے ہیں، خواہ اسی بلڈر کو بیچ دیں یا کسی تیسرے شخص کو فروخت کر دیں دونوں صورتیں جائز ہیں۔

حوالہ جات
بدائع الصنائع (5/3) دار الكتب العلمية،بيروت:
وأما صفة الاستصناع  فهي أنه عقد غير لازم قبل العمل في الجانبين جميعا بلا خلاف حتى كان لكل واحد منهما خيار الامتناع قبل العمل كالبيع المشروط فيه الخيار للمتبايعين ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وأما بعد الفراغ من العمل قبل أن يراه المستصنع فكذلك حتى كان للصانع أن يبيعه ممن شاء۔
حاشية ابن عابدين (5/ 225) دار الفكر-بيروت:
وعلله بأن الصانع بائع ما لم يره، ولا خيار له ولأنه بإحضاره أسقط خيار نفسه الذي كان    له قبله فبقي خيار صاحبه على حاله اهـ. وفي الفتح وأما بعدما رآه فالأصح أنه لا خيار للصانع بل إذا قبله المستصنع أجبر على دفعه له لأنه بالآخرة بائع اهـ وهذا هو المراد من نفي الخيار في المبسوط فقول المصنف في المنح: ولا خيار للصانع، كذا ذكره في المبسوط، فيجبر على العمل لأنه باع ما لم يره إلخ صوابه أن يقول: فيجبر على التسليم لأن الكلام بعد العمل، وأيضا فالتعليل لا يوافق المعلل على ما فهمه، وهذا هو منشأ ما ذكره في متنه أولا وقد علمت تصريح كتب المذهب بثبوت الخيار قبل العمل، وفي كافي الحاكم الذي هو متن المبسوط ما نصه
الهداية في شرح بداية المبتدي (4/ 318) دار احياء التراث العربي – بيروت:
قال: "الشفعة واجبة في العقار وإن كان مما لا يقسم" وقال الشافعي: لا شفعة فيما لا يقسم، لأن الشفعة إنما وجبت دفعا لمؤنة القسمة، وهذا لا يتحقق فيما لا يقسم ولنا قوله عليه الصلاة والسلام: "الشفعة في كل شيء عقار أو ربع" إلى غير ذلك من العمومات، ولأن الشفعة سببها الاتصال في الملك والحكمة دفع ضرر سوء الجوار على ما مر، وأنه ينتظم القسمين ما يقسم وما لا يقسم وهو الحمام والرحى والبئر والطريق.
كتاب المعايير (ص: 105):
أن الاستصناع عقد لازم بنفسه، فإنه تترتب آثاره بمجرد العقد، ولا حاجة إلى إعادة إيجاب وقبول بعد الصنع، وهذا بخلاف الوعد بالمرابحة للآمر بالشراء الذي يحتاج إلى إنشاء البيع بإيجاب وقبول بعد تملك المؤسسة للمبيع.
المعاییر الشرعیہ(ص:298):
’’عقد الاستصناع  ملزم للطرفين اذا توافرت  فيه شروطه‘‘
المعايير الشرعية:(ص:300):
8/1/3: يجوز الاستصناع في المباني لإقامتها على أرض معينة مملوكة للمستصنع أو للصانع، أو على الأرض التي ملك أحدهما منفعتها، وذلك على اعتبار أن المستصنع فيه هو المباني الموصوفة وليس المكان المعين.
المعايير الشرعية:(ص:304):
4/6:يجوز أن يكون تسليم المصنوع بطريق القبض الحكمي بتمكن الصانع للمستصنع من قبض المصنوع بعد إنجازه، وبذلك ينتهي ضمان الصانع ويبدأ ضمان المستصنع، فإذا حصل بعد التمكن تلف للمصنوع غير ناشئ عن تعدي الصانع أو تقصيره يتحمله المستصنع، وبذلك يتم الفصل بين الضمانين: ضمان الصانع وضمان المستصنع.

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی

30/جمادى الاولیٰ 1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب