021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مشترکہ گھریلو نظام میں پردےسےمتعلق سوالات
78763جائز و ناجائزامور کا بیانپردے کے احکام

سوال

سوال:مشترکہ خاندانی نظام میں جس طرح پٹھانوں کےہاں رائج ہے،اس میں اگر بیوی کو بخیال مصلحت یہ نہ بتایاجائےکہ دیور سےپردہ ضروری ہے؟جبکہ آپ کوپتہ ہےکہ یہ شرعی حکم ہے،لیکن پردہ کرنےسےباقی سب گھروالےماں باپ ناراض ہونےکےساتھ تمہیں گھر سےبھی باہرکردینےکاخدشہ ہو،اورآپ خودبھی کسی مدرسےمیں پرھ رہےہوں ،تواس صورت میں کیاکرناچاہیے؟

۱۔کیاپردہ کرنےکےلیےہروقت چہرےکوچھپاناضروری ہے؟

۲۔کیابوقت ضرورت دیورکےساتھ بات چیت کرسکتےہیں؟

۳۔کیابوقت ضرورت دیورکےساتھ ہسپتال جاسکتی ہے،جبکہ آپ کےبہن یاماں موجود ہوں ؟

۴۔ضرورت کس حدتک ممنوعات کوختم کرسکتی ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

۱،۴۔صر ف ماں باپ کےڈرسےپردےکانہ بتاناشرعاجائزنہیں ہوگا،پردےکی ترغیب ضروری ہوگی، حکمت ومصلحت سےگھروالوں کی ذہن سازی کریں توامیدہے ماں باپ کی ناراضگی یا گھر سےباہر نکالنےکی نوبت ہی نہیں آئےگی۔

 نامحرم مردوں سےپردےکےلیےچہرےکوچھپاناہروقت ضروری ہے،البتہ بعض صورتیں اس سےمستثنی ہیں،جوکتب فقہ میں مذکورہیں:

۱۔ قاضی کسی فیصلے کےوقت

۲۔گواہ کو گواہی دیتےوقت ۔

۳۔نکاح کاپیغام بھیجنےوالا۔

۴۔ڈاکٹر

مذکورہ بالاچارصورتوں میں بقدرضرورت چہرہ کھولنےکی اجازت ہے،اسی طرح کام کاج کےوقت غیراختیاری طورپرچہرہ ظاہر ہوجائےتودفع حرج کی وجہ سےگنجائش ہوگی،اس کےعلاوہ ہرحالت میں چہرےکوچھپاناضروری ہے۔

 

شرعی پردہ کے لئے شرعاکوئی ضروری نہیں کہ آپ الگ گھرمیں رہتے ہوں،بلکہ جہاں سب بھائی اکٹھے رہتے ہوں وہاں بھی پردہ ضروری ہے،نہ کیاجائے توسب گھروالے گناہ میں برابرکے شریک ہونگے،اس کاطریقہ یہ کیاجائے کہ گھرمیں عورتیں لباس میں احتیاط کریں بالخصوص سرپرموٹادوپٹہ رکھنے کااہتمام کریں،اوراگرایسی بڑی چادر لے لی جائے جوسرسے لیکرپاؤں تک بدن ڈھانپ دے،اورکام کاج میں بھی رکاوٹ نہ بنےتواوربہترہےتاکہ جب پردہ کی ضرورت پڑے گھونگھٹ نکالنے میں دقت نہ ہو،اوربلاضرورت غیرمحرم سے بات نہ کریں،اگرضرورت ہوتوپردہ میں بات کرنے میں کوئی حرج نہیں،اورگھرکے مردوں کوبھی چاہئے کہ گھرمیں آتے جاتے ہوئے ذاراکھنکھارکرخواتین کوبھی پردہ کی طرف متوجہ کریں۔

نامحرم کے سامنے سر،بازو اورپنڈلی وغیرہ بھی کھولنا شرعاحرام ہے،اگربہت ہی مجبوری ہومثلا  سب ایک گھرمیں مشترک رہتے ہوں،جہاں نامحرم رشتہ داروں کاآناجاناکثرت سے ہوتاہو،اورگھربھی اتناکشادہ نہ ہوکہ ہروقت پردہ ہوسکے،توایسی حالت میں چہرہ اوردونوں ہاتھ کلائی تک اوردونوں پاؤں ٹخنوں سے  نیچے تک کھلارکھنے کی اجازت ہے،اس کے علاوہ بدن کے کسی حصے کاکھلا رکھناجائزنہ ہوگا، ایسی عورتوں پرلازم ہے کہ سرخوب ڈھانکیں،کرتہ بڑی  آستین کاپہنیں کہ کلائی اورٹخنیں نہ کھلنے پائیں۔  (ماخوذازاصلاح الرسوم صفحہ 119،120 )

۲۔بوقت ضرورت بقدرضرورت دیورسےبات چیت کی جاسکتی ہے،لیکن حدیث شریف میں دیور سےپردےکاخاص طورپرحکم دیاگیاہے،اس لیےحدردجہ احتیاط ضروری ہے۔

۳۔بہن یاماں ساتھ موجود ہوں تودیورکےساتھ ہسپتال جانےمیں حرج نہیں ،اورگربہن یاماں موجود نہ ہو توبھی بوقت ضرورت اکیلی دیورکےساتھ جاسکتی ہے،لیکن دونوں میں صورتوں میں شرعی  پردےکااہتمام ضروری ہوگا۔

حوالہ جات
"صحيح البخاري"5 /  2005:
عن عقبة بن عامر أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال   : ( إياكم والدخول على النساء ) فقال رجل من الأنصار يا رسول الله أفرأيت الحمو ؟ قال ( الحمو الموت )۔
"مرقاة المفاتيح " 10 /  53:
 قال الحمو الموت أي دخوله كالموت مهلك يعني الفتنة منه أكثر لمساهلة الناس في ذلك وهذا على حد الأسد الموت والسلطان النار أي قربهما كالموت والنار أي فليحذر عنه كما يحذر عن الموت۔
"تفسير ابن كثير"6 / 409:
ثم قال: { فَلا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ } . قال السُّدِّي وغيره: يعني بذلك: ترقيق الكلام إذا خاطبن الرجال؛ ولهذا قال: { فَيَطْمَعَ الَّذِي فِي قَلْبِهِ مَرَضٌ } أي: دَغَل، { وَقُلْنَ قَوْلا مَعْرُوفًا } : قال ابن زيد: قولا حسنًا جميلا معروفًا في الخير.
ومعنى هذا: أنها تخاطب الأجانب بكلام ليس فيه ترخيم، أي: لا تخاطب المرأة الأجانب كما تخاطب زوجها۔
"الهداية في شرح بداية المبتدي" 4/ 368:
قال: "ويجوز للقاضي إذا أراد أن يحكم عليها وللشاهد إذا أراد أداء الشهادة عليها النظر إلى وجهها وإن خاف أن يشتهي" للحاجة إلى إحياء حقوق الناس بواسطة القضاء وأداء الشهادة، ولكن ينبغي أن يقصد به أداء الشهادة أو الحكم عليها لا قضاء الشهوة تحرزا عما يمكنه التحرز عنه وهو قصد القبيح. وأما النظر لتحمل الشهادة إذا اشتهى قيل يباح. والأصح أنه لا يباح؛ لأنه يوجد من لا يشتهي فلا ضرورة، بخلاف حالة الأداء،
"ومن أراد أن يتزوج امرأة فلا بأس بأن ينظر إليها وإن علم أنه يشتهيها" لقوله عليه الصلاة والسلام فيه: "أبصرها فإنه أحرى أن يؤدم بينكما" ولأن مقصوده إقامة السنة لا قضاء الشهوة. "ويجوز للطبيب أن ينظر إلى موضع المرض منها" للضرورة "وينبغي أن يعلم امرأة مداواتها" لأن نظر الجنس إلى الجنس أسهل "فإن لم يقدروا يستر كل عضو منها سوى موضع المرض" ثم ينظر ويغض بصره ما استطاع؛ لأن ما ثبت بالضرورة يتقدر بقدرها وصار كنظر الخافضة والختان. "

محمدبن عبدالرحیم

دارالافتاءجامعۃ الرشیدکراچی

05/جمادی الثانیہ    1444ھج

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمّد بن حضرت استاذ صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب