82342 | میراث کے مسائل | میراث کے متفرق مسائل |
سوال
کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ
ایک شخص مرحوم احمد جان بن لعل محمدکا انتقال تین اپریل2005کو ہوا،اس کا ترکہ 25مرلے کا ایک پلاٹ تھا، مرحوم احمد جان بن لعل محمدکےموت کے وقت درج ذیل ورثہ زندہ تھے:
دو بیویاں:بادشاہ جہان بی بی،زرفروشہ بی بی،تین بیٹے: حضرت جان،محمدعرفان،محمدعمران،اورایک بیٹی نسیم بیگم۔ان میں سے حضرت جان اورنسیم بیگم پہلی بیوی سے ہیں، جبکہ محمدعرفان اورمحمدعمران دوسری بیوی سے ہیں ۔
اس کے بعددوسری بیوی زرفروشہ 9 اپریل 2011 کو فوت ہوئی اورموت کے وقت اس کے درج ذیل ورثہ زندہ تھے:
دو بیٹےمحمدعرفان اورمحمدعمران ۔برائےکرم یہ وضاحت فرمائیں کہ ان سب میں میراث کیسے تقسیم ہوگی ؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
صورتِ مسئولہ میں چونکہ دولوگ یکے بعددیگرےفوت ہوئے ہیں اور ان میں سے بعض بعض کے وارث ہیں، لہذاموجودہ صورت میں مرحومین کے مال میں سے جن جن ورثاء کوجو جوحصہ ملے گا،آسانی کے لیے ذیل میں اس کاجدول ملاحظہ ہو۔
مورث اعلیاحمد جان بن لعل محمد/ کل مال :100
دیگرتفصیل |
فیصدی حصہ |
حصہ32میں سے |
مورث اعلی سے رشتہ |
زندہ ورثہ |
نمبر شمار |
خاوند سے |
6.25٪ |
32/2 |
بیوی |
بادشاہ جہاں بی بی |
1 |
والد سے |
25٪ |
32/8 |
بیٹا |
حضرت جان |
2 |
والد اوروالدہ سے |
28.125٪ |
32/9 |
بیٹا |
محمد عرفان |
3 |
والد اوروالدہ سے |
28.125٪ |
32/9 |
بیٹا |
محمد عمران |
4 |
والد سے |
12.5٪ |
32/4 |
بیٹی |
نسیم بیگم |
5 |
|
100٪ |
32 |
|
ٹوٹل: |
واضح رہے کہ یکے بعد دیگرے ورثہ کے فوت ہونے کی صورت میں دوسری میت سے آخر تک کے اموات کوپہلی میت سے بھی ملتاہے اورعام طورپر فوت ہونے کے وقت ان کی ذاتی ملکیت میں بھی کچھ نہ کچھ مال ہوتاہے تو جب ان کا مال تقسیم ہوتوپہلی میت سے ملنے والے مال کے ساتھ اس کے دیگرذاتی اموال کو بھی ملایاجاتاہے جو بوقت موت ان کی ملکیت میں ہوتاہے لہذا مسئولہ صورت میں دوسری میت زرفروشہ کی میراث تقسیم کرتے وقت دونوں مالوں(پہلی میت احمد جان بن لعل محمدسے ملنے والااوراپنا) کو جمع کرلیا جائےگا،اورپھر کل مال جتنا بھی ہوجائے اس کوورثہ میں تقسیم کیاجائے گا، تقسیم کا طریقہ کار وہی ہوگاجو اوپر مذکورہوا ۔
حوالہ جات
قال في كنز الدقائق :
"يبدأ من تركة الميّت بتجهيزه ثمّ ديونه ثمّ وصيّته ثمّ تقسم بين ورثته،وهم:ذو فرضٍ أي ذو سهمٍ مقدّرٍ..." (ص:696, المكتبة الشاملة)
قال في الفتاوى الهندية:
"وهوأن يموت بعض الورثةقبل قسمة التركة كذا في محيط السرخسي وإذا مات الرجل ،ولم تقسم تركته
حتى مات بعض ورثته ......فإن كانت ورثة الميت هم ورثة الميت الأول،ولا تغير في القسمة تقسم قسمة واحدة ؛ لأنه لا فائدة في تكرار القسمة بيانه إذا مات وترك بنين وبنات ثم مات أحد البنين أو إحدى البنات ولا وارث له سوى الإخوة والأخوات قسمت التركة بين الباقين على صفة واحدة للذكر مثل حظ الأنثيين فيكتفي بقسمة واحدة بينهم وأما إذا كان في ورثة الميت الثاني من لم يكن وارثا للميت الأول فإنه تقسم تركة الميت الأول ، أولا ليتبين نصيب الثاني ثم تقسم تركة الميت الثاني بين ورثته فإن كان يستقيم قسمة نصيبه بين ورثته من غير كسر فلا حاجة إلى الضرب." (ج:51,ص:412, المكتبة الشاملة)
قال اللَّه تعالى في القرأن الكريم:
{يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ ......... وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَكُمْ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ...... } [النساء: 12, 11]
سیدحکیم شاہ عفی عنہ
دارالافتاء جامعۃ الرشید
19/06/1445ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | سید حکیم شاہ | مفتیان | آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |