021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
"ای بی ایل پاکستان” نامی کمپنی کے ساتھ کام کرنے کا حکم
78758اجارہ یعنی کرایہ داری اور ملازمت کے احکام و مسائلملازمت کے احکام

سوال

ای بی ایل پاکستان (EBL PAKISTAN) کمپنی، ایف بی آر (FBR) سے رجسٹرڈ ہے، اور 26نومبر2016سے کامیاب آن لائن بزنس کر رہی ہے۔  جوائننگ فیس 750 ہے، 750  روپے ڈپازٹ کر کے آپ کمپنی کو جوائن کریں گے تو آپ کی رجسٹریشن ہو جائے گی، یہ جوائننگ نیا آنے والا خود نہیں کرسکتا، بلکہ اس سے پہلے کمپنی میں جو ممبرز کام کر رہے ہیں، ان میں سے کوئی آپ کو جوائن کرائے گا۔ رجسٹریشن کے بعد آپ کا کام شروع ہوتا ہے، آپ نے اپنی ٹیم میں صرف 2 لوگوں کو جوائن کروانا ہوگا، 1 لیفٹ اور 1 رائٹ، پہلے جوڑے یعنی دو بندوں کو جوائن کرانے سے آپ کو 300 روپے ملیں گے، یعنی فی بندہ 150 روپیہ، لیکن جب تک دو بندوں کو جوائن نہیں کرائیں گے تو صرف ایک بندہ لانے سے 150 روپے نہیں ملیں گے۔ دو بندوں کو جوائن کرانے سے آپ کی کمائی 300 ہوگی، لیکن کمپنی اس میں سے 250 روپے آپ کے اکاؤنٹ میں بھیجے گی، جبکہ 50 روپیہ آپ کو فوری نہیں دے گی، بلکہ اپنے پاس رکھے گی، اسی طرح آگے آپ کے کمیشن کا ایک حصہ اپنے پاس رکھے گی جو بعد میں مختلف سٹارز ملنے پر دئیے جانے والے انعامات میں استعمال ہوگا۔ آج کی جوائننگ کی رقم اگلے دن صبح دس بجے سے پہلے آپ کے ایزی پیسہ یا جاز کیش اکاؤنٹ میں ٹرانسفر ہو جائے گی۔

جب آپ نے دو بندوں کو جوائن کرایا تو اب آپ کا کام ختم، اور آپ کی ٹیم کا کام شروع ہو جاتا ہے، البتہ آپ اپنی ٹیم کی مدد کرسکتے ہیں، چنانچہ وہ 2 لوگ 4 کو جوائن کرائیں گے، 4 لوگ 8 لوگوں کو جوائن کرائیں گے، 8 لوگ 16 لوگوں کو کرائیں گے، 16 لوگ 32 لوگوں کو جوائن کرائیں گے۔ آپ کی ٹیم میں نیچے جن جن لوگوں کے توسط سے بندے آئیں گے، آپ کو ان سب کے حساب سے کمیشن ملے گا۔

 اگر آپ کی ٹیم 4,000 تک پہنچے گی تو کمپنی آپ کو ایک ای بی ایل گرین کارڈ دے گی جس کے ذریعے بغیر محنت اور فکر کےآپ روزانہ پاکستان کے کسی بھی اے ٹی ایم مشین سے3,600 روپے نکلوا سکیں گے، جو ماہانہ 1 لاکھ 8 ہزار روپے بنتے ہیں، اس کو آپ اپنی پنشن بھی سمجھ سکتےہیں۔  جبکہ 4,000 کی ٹیم بننے تک کمپنی آپ کو ممبرز کے آنے پر 4  لاکھ روپے کیش کی صورت میں اور (مختلف سٹارز ملنے پر) 2 لاکھ 50 ہزار کے انعامات دے چکی ہوگی۔

اس کمپنی کی پروڈکٹس بھی ہیں، لیکن مارکیٹنگ کے اس کام کے لیے پروڈکٹس لینا شرط نہیں، صرف 750 روپے ڈپازٹ کراکے آپ مارکیٹنگ کا یہ کام کرسکتے ہیں۔ اگر کمپنی کا ممبر اپنی ضرورت کی کوئی چیز اس کمپنی کی ایپ کے ذریعے لیتا ہے تو اس کو ٪30 ڈسکاؤنٹ دیا جاتا ہے۔  

سوال یہ ہے کہ کیا اس کمپنی کے ساتھ کام کرنا شرعا جائز ہے یا نہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سوال میں ذکر کردہ تفصیل کے مطابق "ای بی ایل پاکستان" نامی کمپنی نیٹ ورک مارکیٹنگ/ ملٹی لیول مارکیٹنگ کی کمپنی ہے، اور اس کے ساتھ کام کرنا جائز نہیں، جس کی وجوہات مندرجہ ذیل ہیں:-

  1. ہر نئے آنے والے ممبر سے رجسٹریشن کے نام پر جو سات سو پچاس (750) روپے لیے جاتے ہیں، وہ صرف اس لیے لیے جاتے ہیں کہ اسے مارکیٹنگ کا موقع دیا جائے گا، یعنی اس کے ساتھ "سمسرہ" کا عقد کیا جائے گا، اور محض عقد کرنے کی وجہ سے کچھ لینا شرعا "رشوت" میں داخل ہے، جو کہ حرام اور ناجائز ہے۔
  2. ہر نیا آنے والا ممبر سات سو پچاس (750) روپے اس امید پر دیتا ہے کہ وہ اور ممبر لاکر بہت سارا روپیہ حاصل کر لے گا۔ پھر ممکن ہے کہ وہ اور ممبر لاکر بہت سارا روپیہ کمالے، اور ممکن ہے وہ اور کوئی ممبر نہ لاسکے اور اس کے اپنے سات سو پچاس (750) روپے بھی ڈوب جائیں۔ اور اپنا مال اس طرح داؤ پر لگانا شرعا "قمار" یعنی جوا ہونے کی وجہ سے ناجائز اور حرام ہے۔
  3. ہر نئے آنے والے ممبر کے کمیشن کو کم از کم دو ممبر (رائٹ اور لفٹ) لانے کے ساتھ مشروط کیا گیا ہے، اگر کوئی ایک ممبر لائے گا تو اس کو کچھ نہیں ملے گا۔ یہ بھی شرعا درست نہیں؛ کیونکہ ایک تو اس نے جتنی محنت کی ہوگی، اسے اس کا کوئی معاوضہ نہیں دیا جائے گا، دوسرا اس میں غرر ہے، اجرت یعنی کمیشن وجود اور عدم کے درمیان دائر ہے، کہ اگر وہ دو ممبر لائے گا تو اجرت ملے گی اور ایک لائے گا تو نہیں ملے گی۔
  4. جب کوئی ممبر دو ممبر (لفٹ اور رائٹ) لائے تو اس کے بعد اگر وہ کام نہ کرے تب بھی ان دونوں ممبران کے ذریعے آنے والے ممبران اور پھر آگے ان کے ذریعے آنے والے ممبران کے آنے پر اس کو کمیشن میں حصہ ملتا رہے گا، حالانکہ اس میں اس کی کوئی محنت شامل نہیں ہوتی۔ اور خود کام کیے بغیر دوسروں کی محنت کی کمائی میں حصہ دار بننا درست نہیں۔    
حوالہ جات
فقه البیوع (2/815-812):
:358البیع عن طریق شبکة التسویق (Marketing    Network):
وقد جری عمل بعض الشرکات علی أنها تبیع منتجًا من منتجاتها، مع إعطاء الحق للمشتري أن یسوق ذلك المنتج، ویلتمس له مشترین آخرین. فلو فعل ذلك ونجح في الحصول علی عدد من المشترین، بشروطٍ یعینها نظام الشرکة، فإنه یفوز بمبلغ أو شیئٍ ثمین من قبل الشرکة. وکذلك المشترون الجُدَدُ الذین اشتروا هذا المنتج بوساطة المشتری الأول یحق لهم أن یلتمسوا مشترین آخرین، فإن نجحوا في إیجاد عدد معین من المشترین بالشروط المعینة في النظام، فإنهم یستحقون ذلك المبلغ أو الشیئ الثمین أیضًا. وإن بلغ المشترون عن طریق هذه الشبکة عددًا معینًا، فلا یزال المشتري الأول یحصل علی مبالغ أو أشیاء معینة في النظام عند دخول المشترین الجُدَدِ بشروط معینة، وإن کان قد عمل في الحصول علی المشترین لأول مرة فقط.
وإن هذا الطریق بدأته بعض الشرکات في البلاد الغربیة، ثم اختارته بعض الشرکات في البلاد الإسلامیة أیضًا. وقد تسمی "نظام شبکة التسویق" (Marketing     Network      System) أو "نظام عدة مستویات للتسویق" (Multi- Level      Marketing System )، وقد یخفف، فیقال:.MLM وقد جری العمل به بطرق وشروط مختلفة، ولکن القدر المشترك في جمیعها أن بیع المنتَج مصحوب بنظام للتسویق یدخل فیه المشترون، ویلتمسون مشترین آخرین، ویفوزون في بعض الحالات المشروطة في النظام بمبالغ أوأشیاء ثمینة.
وإن الحکم الشرعي لهذا النظام وشراء منتجاته یختلف باختلاف الأحوال:
1-إن کان بیع المنتَج مشروطًا بأن یدخل المشتري في شبکة التسویق، فهذا البیع فاسد؛ لاشتراط ما لایقتضیه العقد.
2-إن کان الدخول في شبکة التسویق غیر مشروط في بیع المنتَج، واقتصر المشتري علی شراء المنتَج فقط، ولم یدخل في شبکة التسویق، فهو شراؤ جائز، إذا استوفی شرائط جواز البیع، ومنها أن یکون المبیع حلالًا.
3-إن کان الدخول في شبکة التسویق غیر مشروط في بیع المنتَج، ولکن المنتج یباع بثمن أکثر من سعر مثله في السوق، فلا یجوز شراؤ المنتج بنیة الدخول في نظام التسویق، وذلك لأن الثمن الزائد لایدفع إلا للدخول في هذا النظام الذي هو عقد مستقل عن شراء المنتج، ولو فرض أن الدخول في السمسرة عقد صحیح، فإن هذه الزیادة في الثمن لیست إلا مقابل مجرد الدخول في العقد، وذلك رشوة. وأما إذا اعتبر عقد السمسرة عقدًا فاسدًا لما فیه من الغرر  کما سیأتي، فإن هذه الزیادة تعلیق للتملیك علی الخطر، وهو قمار محرم.
4-إن کان الدخول في شبکة التسویق غیر مشروط في بیع المنتج، والمنتج یباع بسعر السوق، واشتراه المشتري بنیة الدخول في نظام التسویق، فالدخول في التسویق عقد مستقل عن البیع، وهو سمسرة من الناحیة الفقهیة، وما یتسلم من المبالغ بالتسویق هو أجرة للسمسرة، فیجب أن یستوفي العقد شرائط جوازه الشرعي. ولکن المتبع في هذا النظام عادةً أن المشتري لایستحق أجرة السمسرة بإیجاد مشتر واحد، وإنما یستحق الأجر إذا أوجد عددًا من المشترین، وإن أوجد المشترین بذلك العدد، فإنه لایزال یحصل علی حصةٍ من مبالغ تدفع علی إیجاد المشترین من غیره. وهنا نقطتان لا بد من بحثهما:   
النقطة الأولی: هل یجوز الاشتراط علی السمسار أنه لایستحق الأجرة إلا إذا أتی بمشتر أکثر من واحد؟ وفیه احتمالان:
الاحتمال الأول: أن یجوز علی أساس الجعالة، أما کون جهده یضیع دون عائد إن أتی بمشتر واحد فقط، فإن جهده یضیع في السمسرة العادیة أیضًا إن لم یتمکن من التماس مشتر واحد. فإن تحمل هذا الغرر في عقد السمسرة العادیة، فلایبعد أن یتحمل في اشتراط عدد من المشترین.
والاحتمال الثاني: أن لایجوز؛ لأن الغرر في إیجاد مشتر واحد أقل، وقد جری به التعامل. أما إذا اشترط عدد أکثر، فإن الغرر فاحش، ولم یجر به التعامل، فلایجوز. ولذلك منع الإمام مالك رحمه الله تعالی الجعل المشروط علی بیع سلع کثیرة. جاء في المدونة الکبری:
"قلت: والكثير من السلع لا يصلح فيه الجعل في قول مالك؟ قال: نعم لا يصلح فيه الجعل وتصلح فيه الإجارة عند مالك. قلت: والقليل من السلع تصلح فيه الإجارة والجعل جميعا في قول مالك؟ قال: نعم. قلت: لم كره مالك في السلع الكثيرة أن يبيعها الرجل للرجل بالجعل؟ قال: لأن السلع الكثيرة تشغل بائعها عن أن يبيع أو يشتري أو يعمل في غيرها, فإذا كثرت السلع هكذا حتى يشتغل الرجل لم يصلح إلا بإجارة معلومة. قال لي مالك: والثوب والثوبان وما أشبههما من الأشياء التي لا تشغل صاحبها عن أن يعمل في غيرها, فلا بأس بالجعل فيها وهو متى ما شاء أن يترك ترك, والإجارة ليس له أن يتركها متى ما شاء. "
وإن الغرر في مثل هذا النظام کثیر، وخاصة لأنه یعتمد عادةً علی شروط معقدة یفحش بها الغرر.
والذي شهدت به التجربة أن المنتج في غالب الأحیان شیئ یسیر یباع بثمن غالٍ، وقد لایوجد له السوق، وإنما یشتریه الناس طمعًا في الحصول علی مبالغ ضخمة عن طریق شبکة التسویق. وکان بعض الناس قبل هذا النظام لایبیعون شیئًا، بل یتسلمون الأموال بدفعهم تذاکر لیس وراءها مال أومنفعة، غیر أن الذي یأخذ هذه التذکرة یدخل في الشبکة، ویلتمس آخرین لشراء التذاکر، ویفوز بمبالغ إن بلغ المشترون إلی عددٍ معین. وکان ذلك قمارًا بحتًا، ویسمی "الطریقة الأهرامیة" (Pyramid      Scheme) ومنعته قوانین أکثر البلاد؛ لأنه اغتصب أموال الناس بهذه المقامرة. فلما منعت هذه الطریقة، أدخلوا بعض المنتجات بدل التذاکر، ولکن زادوا في ثمنها، وسموها "شبکة التسویق، والمقصود نفس ما کان مقصودًا في الطریقة الأهرامیة. وإنه لم یمنع في کثیر من البلاد حتی الآن، ولکنه بهذه الطریقة ممنوع شرعًا.
رد المحتار (6/ 403):
قوله ( لأنه يصير قمارا ) لأن القمار من القمر الذي يزداد تارة وينقص أخرى، وسمي القمار قمارا؛ لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه ويجوز أن يستفيد مال صاحبه، وهو حرام بالنص.
الفتاوى الهندية (4/ 423):
لو قال: إن خطته اليوم فبدرهم وإن خطته غدا فلا أجر لك، فإن خاطه في اليوم فله درهم، وإن خاطه في الغد فله أجر مثله، لا يزاد على درهم بالإجماع،كذا في محيط السرخسي.
مسند أحمد - الرسالة (28/ 502):
حدثنا يزيد حدثنا المسعودي عن وائل أبي بكر عن عباية بن رفاعة بن رافع بن خديج عن جده رافع بن خديج قال: قيل: يا رسول الله! أي الكسب أطيب؟ قال: عمل الرجل بيده، وكل بيع مبرور.

عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

  10/جمادی الآخرۃ/1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب