021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
میں تجھے طلاق کہنے کاحکم
78775طلاق کے احکامطلاق دینے اورطلاق واقع ہونے کا بیان

سوال

میری بیوی سے فون پر بحث ہو  رہی تھی،پندرہ منٹ  بعد بحث کے دوران میں نے کہا:"میں تجھے طلاق"تک ہی کہا تھا کہ فون کٹ گیا۔دوبارہ پندرہ بیس منٹ کے بعد فون ہوا تو پھر میں نے کہا کہ"میں تجھے طلاق"تک پہنچا تھا کہ دوسری طرف سے کال کاٹ دی گئی۔اب یہ  ہو رہا ہے کہ دونوں طرف سے پچھتاوا ہو رہا ہے۔گزارش ہے کہ اس مسئلے کا کوئی ایسا حل ہو سکتا ہے کہ ہم دوبارہ مل کر رہ سکیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورتِ مسئولہ میں اگر واقعتاً آپ  نے  صرف اتنا جملہ کہا ہو کہ  "میں تجھے طلاق " پھرآگے جملہ مکمل نہ کیا ہو تو ان الفاظ سے طلاق واقع نہ ہو گی ،کیونکہ کہ مذکورہ جملہ ایک نامکمل جملہ ہے،  لہذا آپ   میاں بیوی پہلے کی طرح مل کر رہ سکتے ہیں ، تاہم طلاق یا اس کے ہم معنٰی الفاظ استعمال کرنے میں بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔لیکن اگر کال کٹ جانے کے باوجود آپ نے  جملہ مکمل کر لیا تھاتو طلاق واقع ہو جائے گی۔اگر دوبارمکمل جملہ ادا کیا ہو تودو   رجعی طلاقیں واقع ہو جائیں گی۔

حوالہ جات
قال جمع من العلماء رحمھم اللہ:ولو حذف القاف من طالق فقال أنت طال فإن كسر اللام وقع بلا نية وإلا فإن كان في مذاكرة الطلاق أو الغضب فكذلك وإلا توقف على النية وإن حذف اللام فقط فقال أنت طاق لا يقع وإن نوى وإن حذف اللام والقاف بأن قال أنت طا وسكت أو أخذ إنسان فمه لا يقع وإن نوى.
(الفتاوی الھندیۃ:1/391)
قا ل العلامۃ ابن عابدین رحمہ اللہ:قوله: وشرعا رفع قيد النكاح، اعترضهم في البحر بأمور: الأول: أنهم قالوا :ركنه اللفظ المخصوص الدال على رفع القيد ،فينبغي تعريفه به ؛لأن حقيقة الشيء ركنه، فعلى هذا هو لفظ دال على رفع قيد النكاح.(رد المحتار:4/424)
قال العلامۃفرید الدین الھندی رحمہ اللہ: الأصل أن الطلاق  إنما یقع لوجود لفظ الإیقاع من مخاطب فی ملکہ.(الفتاوی التاتارخانیۃ:4/392)
قال جمع من العلماء رحمھم اللہ: وإذا طلق الرجل امرأته ‌تطليقة ‌رجعية أو ‌تطليقتين فله أن يراجعها في عدتها رضيت بذلك أو لم ترض كذا في الهداية. (الفتاوی الھندیۃ:1/470)
قال العلامۃ الحصکفی رحمہ اللہ: وتصح ‌مع ‌إكراه وهزل ولعب وخطإ بنحو  متعلق باستدامة رجعتك  ورددتك ومسكتك بلا نية ؛لأنه صريح ،و بالفعل ‌مع الكراهة.(الدر المختار:3/398)
قال جمع من العلماء رحمھم اللہ: وإن ‌كان ‌الطلاق ‌ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة، لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها، ثم يطلقها أو يموت عنها كذا في الهداية.
(الفتاوی الھندیۃ:1/473)

محمد عمر الیاس

دارالافتاء جامعۃالرشید،کراچی

11 جمادی الآخرہ،1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد عمر بن محمد الیاس

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب