021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
حیلۂ اسقاط کا حکم
78899سنت کا بیان (بدعات اور رسومات کا بیان)متفرّق مسائل

سوال

جب کسی بندے کا انتقال ہوجائے تو ہمارے لوگ بظاہر صدقہ کی نیت سے اسقاط دیتے ہیں، لیکن اگر دیکھا جائے تو لوگ اسقاط کو دین کا ضروری حصہ سمجھ کر دیتے ہیں، وہ اس طرح کہ اگر کسی بندے کا انتقال ہوجائے اور اس کے دو عاقل بالغ ورثا ہیں تو یہ وارث اگرچہ غریب سے غریب تر ہوں، لیکن یہ قرض لے کر اسقاط دیتے ہیں۔ اسی طرح اگر کوئی شخص اپنی قوم اور گاؤں میں ہو تو اسقاط دیتے ہیں، اور اگر اپنی قوم اور گاؤں کے علاوہ کسی اور شہر میں ہو تو استطاعت کے باوجود اسقاط نہیں دیتے۔

سوال یہ ہے کہ یہ طریقہ جائز ہے یا نہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مروجہ حیلۂ اسقاط اور سوال میں ذکر کردہ صورت ناجائز اور بدعت ہے، جس سے بچنا لازم ہے۔

حیلۂ اسقاط بعض فقہائے کرام رحمہم اللہ نے اس شخص کے لیے تجویز فرمایا ہے جس کی کچھ نمازیں اور روزے وغیرہ اتفاقاً فوت ہوگئے ہوں، اس کو قضاء کرنے کا موقع نہیں ملا، اور موت کے وقت فدیہ کی وصیت کی، لیکن اس کے ترکہ میں اتنا مال نہیں جس سے تمام نمازوں اور روزوں وغیرہ کا فدیہ ادا کیا جاسکے، یہ نہیں کہ اس کے ترکہ میں مال موجود ہو اور اس نے فدیہ کی وصیت بھی کی ہو، لیکن ورثا وصیت کو پورا کرنے کے بجائے حیلۂ اسقاط اختیار کریں۔ لہٰذا اگر کوئی ایسی صورت پیش آجائے تو میت کی جتنی ایسی عبادات رہی ہوں جن کا فدیہ شرعا واجب ہو اور اس نے فدیہ کی وصیت بھی کی ہو تو اس کے ترکہ سے تجہیز وتکفین کے اخراجات اور قرضے نکالنے کے بعد باقی ماندہ ترکہ کا ایک تہائی حصہ جتنی عبادات کا فدیہ بن سکتا ہے، وہ مستحقینِ زکوۃ افراد کو اتنی عبادات کے فدیہ کے طور پر ملکیتًا دیدیں، پھر وہ دلی رضامندی کے ساتھ وہ مال دوسرے مستحقینِ زکوۃ کو اتنی عبادات کے فدیہ کے طور پر دیں جتنی عبادات کا وہ فدیہ بن سکتا ہے، پھر وہ اپنی دلی رضامندی کے ساتھ آگے یہی عمل کریں؛ یہاں تک کہ میت کی  تمام عبادات کا فدیہ ادا ہوجائے۔

اگر میت نے وصیت کی ہو لیکن اس کے ترکہ میں بالکل کچھ نہ ہو یا قرضے ادا کرنے کے بعد کچھ نہ بچے، یا اس نے وصیت ہی نہیں کی، اور کوئی شخص اپنی طرف سے بطورِ تبرع فدیہ دینا چاہتا ہے، لیکن وہ سارا فدیہ نہیں دے سکتا تو ان دونوں صورتوں میں بھی مذکورہ بالا طریقے کے مطابق حیلۂ اسقاط اختیار کرنے کی گنجائش ہے۔

واضح رہے کہ ان مخصوص صورتوں میں بھی یہ حیلہ  تب درست ہوگا جب ہر فقیر کو جو کچھ دیا جائے، وہ مکمل مالکانہ اختیارات کے ساتھ دیا جائے، اس پر کسی قسم کا دباؤ یا پابندی نہ ہو، اور آخر میں جس فقیر کو جو کچھ ملے، وہ اس سے واپس نہ لیا جائے۔ نیز حیلۂ اسقاط کا یہ مطلب نہ لیا جائے کہ ایک شخص قصداً پوری عمر نماز، روزہ وغیرہ عبادات قضا کرتا رہے، مرنے کے بعد کچھ مال کسی کو دے کر اس کی ساری نمازیں اور روزے وغیرہ ساری عبادات معاف کرادیں گے۔

(باستفادۃٍ من "حیلۂ اسقاط کی شرعی حیثیت" ، جواہر الفقہ: 1/564-557)

حوالہ جات
مجموعة رسائل ابن عابدینؒ (1/225-210):
  الرسالة الثامنة: منة الجلیل لبیان إسقاط ما علی الذمة من کثیر و قلیل.
أقول: بیان الإسقاط و الکفارة و الفدیة و کونه بوصیة من الشخص أولی من أن یفعله عنه  وارثه تبرعا، و هو یجری فی الصلاة، و الواجب فیها أن یعطی للفقیر عن کل فرض نصف  صاع من بر أو دقیقه أو سویقه أو صاع من تمر أو زبیب أو شعیر أو دقیقه إلی غیر ذلك مما ذکر فی باب الفطرة……….. والفروض فی کل یوم و لیلة ستة بزیادة الوتر علی الصلوات الخمس بناءً علی أنه فرض عملی عند الإمام الأعظم رحمه الله تعالی……. فیستقرض الولی قیمتها و یدفعها للفقیر، ثم یستوهبها منه و یتسلمها منه لتتم الهبة، ثم یدفعها لذلك الفقیر أو لفقیر آخر، و هکذا، فیسقط فی کل مرة کفارۃ سنة، و إن استقرض أکثر من ذلك یسقط بقدره، و بعد ذلك یعید الدور لکفارة الصیام، ثم للأضحیة، ثم للأیمان…… ( و المنصوص) علیه فی المذهب، و علیه العمل أن یجمع الوارث عشرة رجال لیس فیهم غنی و لا عبد و لا صبی و لا مجنون، ثم یحسب سن المیت فیطرح منه اثنتی عشرة سنة لمدة بلوغه إن کان المیت ذکرا أو تسع سنین إن کان أنثی، و إن لم یعلم سنة فیقدر عمر الشخص بغلبة الظن، فإن لم یوقف علیه قصد إلی الزیادة؛ لأن ذلك أحوط، ثم بعد التخمین علی عمره یسقط عنه ما ذکر من مدة الذکر و الأنثی، و یخرج الکفارة عن الباقی؛ لأن أدنی مدة یبلغ فیها الذکر اثنتا عشرة سنة والأنثی تسع سنین، هکذا ینبغی أن یفعل، و إن کان الشخص محافظا علی صلواته احتیا طا خشیة أن یکون وقع خلل و لم یشعر به. ( و مما تعارفه الناس) و نص علیه أهل المذهب أن الواجب إذا کثر أداروا صرة مشتملة علی نقود، أوغیرها کجواهر، أوحلی، أوساعة، وبنوا الأمر علی اعتبار القیمة. و لإدارة الصرة طرایق، أحسنها أن یعطی الوصی الصرة إلی الفقیر علی أنها فدیة عن صلاة یقدرها و یقول له: خذ هذه الصرة عن فدیة صلاة سنة أو عشر سنین مثلا عن فلان بن فلان الفلانی، أو ملکتك هذه عن فدیة صلوات سنة عن فلان الخ، و یقبلها الفقیر و یقبضها و یعلم أنها صارت ملکا له، و یقول الفقیر هکذا: و أنا قبلتها و تملکتها منك، ثم یعطیها الفقیر إلی الوصیة بطریق الهبة و یقبضها الوصی، ثم یعطیها الوصی إلی الفقیر الآخر و یأخذها منه علی نحو ما ذکرنا، و هکذا یفعل الوصی حتی یستوعب الفقراء و یستوعب قدر ما علی المیت من الصلوات، ثم یفعل کذلك عن الصوم، و عن جمیع ما ذکرنا من الصیام و الأضحیة، ثم بعد تمام ذلك کله ینبغی أن یتصدق علی الفقراء بشیئ من ذلك المال أو بما أصی به المیت. و المنصوص فی کلامهم متونا و شروحا و حواشی أن الذی یتولی ذلك إنما هو الولی، و أن المراد بالولی من له ولایة التصرف فی ماله بوصایة أو وراثة، و أن المیت لو لم یملك شیئًا یفعل له ذلك الوارث من ماله إن شاء، فإن لم یکن للوارث مال یستوهب من الغیر أو یستقرض لیدفعه للفقیر ثم یستوهبه من الفقیر، و هکذا إلی أن یتم المقصود……….. و یجب الاحتراز من أن یلاحظ الوصی عند دفع الصرة للفقیر الهزل أو الحیلة، بل یجب أن یدفعها عازما علی تملیکها منه حقیقةً لا تحیلًا، ملاحظا أن الفقیر إذا أبی عن هبتها إلی الوصی کان له ذلك و لا یجبر علی الهبة. و یجب أن یحترز عن کسر خاطر الفقیر بعد ذلك بل یرضیه بما تطیب به نفسه کما قدمناه.    

عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

  21/جمادی الآخرۃ/1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب