021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
اسقاط حمل کا ذریعہ بننے والا ٹیسٹ
79059جائز و ناجائزامور کا بیانعلاج کابیان

سوال

میں ایک لبارٹری میں کام کرتا ہوں جو حاملہ خواتین کے خون کے نمونے باہر ممالک بھجواتی ہے، اس خون سے حمل میں موجود بچے کے ڈی این اے (DNA) کے ذرات سے یہ بات بتائی جاتی ہے کہ آیا حمل میں موجود بچہ نارمل ہے یا نہیں۔یہ ٹیسٹ حمل کے دسویں (10)ہفتے سے اکسویں(21) ہفتے تک کروایا جا سکتا ہے۔

یہ ٹیسٹ ان حاملہ خواتین کیلئے تجویز کیا جاتا ہے :

-1 جن کی عمر ۳۵ سال سے زائد ہو۔

-2 جن کے کئی حمل ضائع (Miscarriage) ہوئے ہوں

-3 جن کی فیملی میں abnormal   بچے پیدا ہوئے ہوں

-4 جن کے الٹراساونڈ سے ڈاکٹرکو abnormality کا شبہ ہو

ہمارے اسکرینگ ٹیسٹ کا رزلٹ مثبت آنے کی صورت میں ڈاکٹر تصدیقی ٹیسٹ کرتے ہیں ، ڈاکٹر حاملہ خاتون سے  Amniotic fluid  لے کر یہ پتا لگاتے ہیں کہ بچے میں کوئی مسئلہ ہے یا نہیں اور نتیجے کی صورت میں والدین فیصلہ کرتے ہیں کہ آیا وہ حمل کو جاری رکھتے ہیں یا ختم کرتے ہیں۔

ہماری رہنمائی فرمائیں کہ آیا ہمارا یہ اسکریننگ ٹیسٹ  کروانا شرعاً جائز ہے یا نہیں؟

وضاحت:اسکریننگ ٹیسٹ کے بعد ایک اور ٹیسٹ ہوتا ہے جس کی بنیاد پر اسقاط حمل کا فیصلہ کیا جاتا ہے اور چونکہ وہ ٹیسٹ خطرناک ہوتا ہے ، اس وجہ سے اس سے پہلے اسکریننگ ٹیسٹ  کرتے ہیں تا کہ جن خواتین میں کوئی شبہ باقی ہو صرف ان ہی کا تصدیقی ٹیسٹ کروایا جائے  پھر اس تصدیقی ٹیسٹ کی بنا پر اسقاط حمل کرنے نہ کرنے کا فیصلہ ہو۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ بغیر کسی عذر کے اسقاط حمل /ابارشن کروانا جائز نہیں، البتہ اگر حمل 4 ماہ یعنی 120 دن سے کم کا ہو اور کوئی ماہر دیندار ڈاکٹر یہ کہے کہ بچے کی پیدائیش کی وجہ سے ماں کی جان کو خطرہ ہے یا ماں کی صحت   بچہ جننے کے عمل کی متحمل نہیں   تو اسقاط ِ حمل /ابارشن کی گنجائش ہے۔  4 ماہ یعنی 120 دن یا اس سے زیادہ گزر جانے کے بعد کسی صورت میں اسقاط حمل جائز نہیں۔

مذکورہ بالا وضاحت کے بعد آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ اسکریننگ ٹیسٹ اگر اس وقت کیا جائے جب حمل 4 ماہ یعنی 120 دن سے کم کا ہو تو اس ٹیسٹ کے کرنے میں کوئی حرج نہیں، البتہ اگر4ماہ (جو کہ تقریبا 17 ہفتے بنتے ہیں اور  اسکریننگ ٹیسٹ 21 ہفتے تک کیا جاسکتا ہے)  کے بعد یہ  ٹیسٹ کیا  جائے  تو چونکہ اسقاط حمل/ ابارشن    اس مدت کے بعد نہیں کیا جاسکتا تو اس ٹیسٹ کے کرنے کا کوئی فائدہ نہیں محض پیسے  ضائع کرنا اور تشویش پیدا کرنا ہے، لہذا اس مدت کے بعد یہ ٹیسٹ نہ کیا جائے۔

تصدیقی ٹیسٹ بھی ہے  4 ماہ کی مدت کے اندر کیا جائے تو جائز ہے ، البتہ اس ٹیسٹ پر چونکہ اسقاط حمل/ابارشن کا فیصلہ کیا جاتا ہے لہذا  4 ماہ کے بعد یہ ٹیسٹ  جائز نہیں۔

حوالہ جات
حاشية ابن عابدين (3/ 176)
مطلب في حكم إسقاط الحمل  قوله ( وقالوا الخ ) قال في النهر بقي هل يباح الإسقاط بعد الحمل نعم يباح ما لم يتخلق منه شيء ولن يكون ذلك إلا بعد مائة وعشرين يوما وهذا يقتضي أنهم أرادوا بالتخليق نفخ الروح وإلا فهو غلط لأن التخليق يتحقق بالمشاهدة قبل هذه المدة كذا في الفتح وإطلاقهم يفيد عدم توقف جواز إسقاطها قبل المدة المذكورة على إذن الزوج ۔وفي كراهة الخانية ولا أقول بالحل إذ المحرم لو كسر بيض الصيد ضمنه لأنه أصل الصيد فلما كان يؤاخذ بالجزء فلا أقل من أن يلحقها إثم هنا إذا أسقطت بغير عذر اه ۔ قال ابن وهبان ومن الأعذار أن ينقطع لبنها بعد ظهور الحمل وليس لأبي الصبي ما يستأجر به الظئر ويخاف هلاكه  ونقل عن الذخيرة لو أرادت الإلقاء قبل مضي زمن ينفخ فيه الروح هل يباح لها ذلك أم لا اختلفوا فيه وكان الفقيه علي بن موسى يقول إنه يكره فإن الماء بعد ما وقع في الرحم مآله الحياة فيكون له حكم الحياة كما في بيضة صيد الحرم ونحوه في الظهيرية ،قال ابن وهبان فإباحة الإسقاط محمولة على حالة العذر أو أنها لا تأثم إثم القتل اه  وبما في الذخيرة تبين أنهم ما أرادوا بالتحقيق إلا نفخ الروح وأن قاضيخان مسبوق بما مر من التفقه والله تعالى الموفق اه كلام النهر

عمر فاروق

دار الافتاء جامعۃ الرشیدکراچی

۲۸/جمادی الثانیہ/۱۴۴۴ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عمر فاروق بن فرقان احمد آفاق

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب