021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بدعتی امام کی اقتداء کاحکم
79165.62نماز کا بیانامامت اور جماعت کے احکام

سوال

ہمارے مُحلے میں  ایک ہی مسجد ہے،اور وہ بھی بریلوی مکتبہ فکر کے لوگوں نے سنبھالی ہوئی ہے، تو کیا ہم ان کےپیچھے نماز پڑھ سکتے ہیں یا نہیں ؟نِیز کیا ہم  اس عذر کی وجہ سے گھر میں نماز پڑھ سکتے ہیں ؟       

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اگر  اِمام  کے شِرکیہ عقائد ہونے کا یقین یا غالب گمان نہ ہو،صرف عملی بدعات و رسُومات میں مبتلاہو، تواس کے پیچھے نماز مکروہ تَنزیہی ہے،اگر کوئی اور صحیح العقیدہ  امام  موجودنہ ہو تو پھر اکیلے نماز پڑھنے سے بہتر ہے کہ  اِسی   امام کے پیچھے ہی نماز پڑھ لی جائے ،جماعت ترک نہ کی جائے۔البتہ  نماز جیسی اہم عبادت کے لیے تھوڑی مشقت  کرکے کسی صحیح العقیدہ امام کے پیچھے نماز پڑھنے کا اہتمام کرنا چاہیے تاکہ زیادہ باعثِ ثواب ہو۔

حوالہ جات
رد المحتار"4 / 239:
" ( ومبتدع ) أي صاحب بدعة وهي اعتقاد خلاف المعروف عن الرسول لا بمعاندة بل بنوع شبهة وكل من كان من قبلتنا ( لا يكفر بها ) حتى الخوارج الذين يستحلون دماءنا وأموالنا وسب الرسول ، وينكرون صفاته تعالى وجواز رؤيته لكونه عن تأويل وشبهة بدليل قبول شهادتهم ، إلا الخطابية ومنا من كفرهم ( وإن ) أنكر بعض ما علم من الدين ضرورة ( كفر بها ) كقوله إن الله تعالى جسم كالأجسام وإنكاره صحبة الصديق ( فلا يصح الاقتداء به أصلا ) فليحفظ۔
"بدائع الصنائع " (1/ 157):
"وإمامة صاحب الهوى والبدعة مكروهة، نص عليه أبو يوسف في الأمالي فقال: أكره أن يكون الإمام صاحب هوى وبدعة؛ لأن الناس لا يرغبون في الصلاة خلفه، وهل تجوز الصلاة خلفه؟
قال بعض مشايخنا: إن الصلاة خلف المبتدع لا تجوز، وذكر في المنتقى رواية عن أبي حنيفة أنه كان لا يرى الصلاة خلف المبتدع، والصحيح أنه إن كان هوى يكفره لا تجوز، وإن كان لا يكفره تجوز مع الكراهة".

عدنان اختر

دارالافتاءجامعۃ الرشیدکراچی

۲،رجب ؍۱۴۴۴ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عدنان اختر بن محمد پرویز اختر

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سعید احمد حسن صاحب