021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
جنرل پراویڈنٹ فنڈ کی رقم پر زکوۃ کا حکم
79170زکوة کابیانان چیزوں کا بیان جن میں زکوة لازم ہوتی ہے اور جن میں نہیں ہوتی

سوال

جنرل پراویڈنٹ فنڈ (GPF) کا اصول یہ ہے کہ جب ملازم ریٹائر ہوتا ہے تو اس کی جمع شدہ رقم اس کو لوٹا دی جاتی ہے، اگر ملازم دورانِ ملازمت فوت ہوجائے تو اس کے اکاؤنٹ میں جتنی رقم جمع ہوچکی ہوتی ہے، وہ اس کے ورثا کو ادا کردی جاتی ہے۔

سوال یہ ہے کہ GPF اکاؤنٹ میں موجود رقم پر ہر سال زکوۃ دینا ہوگی یا ریٹائرمنٹ کے وقت دینا ہوگی؟ ریٹائرمنٹ کے وقت حساب ہونے کی صورت میں ہر سال کا الگ الگ حساب کرنا ہوگا یا یکمشت رقم پر حساب کرنا ہوگا؟ نیز اگر ملازم کا دورانِ ملازمت انتقال ہو اور GPF اکاؤنٹ میں جمع شدہ رقم ورثا کو دی جائے تو اس کی زکوۃ ادا کرنا ورثا پر لازم ہوگا یا نہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

(1)۔۔۔ پراویڈنٹ فنڈ کی رقم اگر متعلقہ محکمہ اپنے ہی اکاؤنٹ میں رکھتا ہو یا ملازم کی اجازت کے بغیر کسی اور ٹرسٹ یا ادارے کو دیتا ہو تو ریٹائرمنٹ کے بعد وہ رقم ملنے کی صورت میں مفتیٰ بہ قول کے مطابق ملازم پر اس کی زکوۃ واجب نہیں ہوگی؛ کیونکہ یہ دینِ ضعیف ہے، البتہ اگر احتیاط پر عمل کرتے ہوئے گزشتہ سالوں کی زکوۃ ادا کردے تو زیادہ بہتر ہے۔ ملازم کی موت کی صورت میں اس کے ورثا پر بھی گزشتہ سالوں کی زکوۃ واجب نہیں ہوگی۔

(2)۔۔۔ البتہ اگر مدتِ ملازمت کے دوران ملازم اپنے اکاؤنٹ میں جمع شدہ رقم سے کچھ رقم قابلِ واپسی آپشن اختیار کرکے لیتا ہے تو پھر جب وہ اپنے محکمہ کو یہ رقم لوٹائے گا تو اس قدر رقم کی آئندہ (جتنے سال وہ رقم محکمہ کے پاس رہے گی، ان) سالوں کی زکوۃ اس پر لازم ہوگی؛ کیونکہ ملازم محکمہ سے جو رقم لیتا ہے، وہ اس کی اپنی ہی رقم ہوتی ہے؛ اسی وجہ سے یہ اس پر جو اضافہ دیتا ہے، اس کو شرعا سود نہیں کہا جاتا، اور اسی وجہ سے زکوۃ کی ادائیگی کے وقت اس (پراویڈنٹ فنڈ سے لی ہوئی قابلِ واپسی) رقم کو قرض سمجھ کر مالِ زکوۃ سے منہا نہیں کیا جاسکتا۔ البتہ وصولی سے قبل اس کی یہ رقم مفتیٰ بہ قول کے مطابق دینِ ضعیف ہوتا ہے، اس لیے اس پر زکوۃ واجب نہیں ہوتی۔ لیکن جب وہ ایک دفعہ اپنے فنڈ سے کچھ رقم وصول کرکے دوبارہ محکمہ کو دیتا ہے تو پھر یہ اس کا دینِ قوی ہوتا ہے، اور زکوۃ کی دیگر شرائط موجود ہونے کی صورت میں  دینِ قوی پر زکوۃ واجب ہوتی ہے؛ اس لیے اس رقم کی زکوۃ واجب ہوگی۔ پھر اس رقم کی ہر سال کی زکوۃ اسی سال بھی دے سکتا ہے، اور اگر یکمشت وصولی کی صورت میں گزشتہ تمام سالوں کی زکوۃ وصولی کے وقت ایک ساتھ دینا چاہے تو اس کی بھی گنجائش ہے۔  

 (3)۔۔۔ اور اگر متعلقہ محکمہ پراویڈنٹ فنڈ کی رقم ملازم کی اجازت سے کسی مستقل اور خود مختار ٹرسٹ یا ادارے کی تحویل میں دیتا ہو تو پھر اس رقم کی زکوۃ ملازم پر واجب ہوگی؛ کیونکہ ایسی صورت میں وہ ٹرسٹ وغیرہ ملازم کا وکیل ہوگا اور وکیل کا قبضہ مؤکل کا قبضہ شمار ہوتا ہے۔ پھر اگر یہ ٹرسٹ یا ادارہ اس رقم کو اپنے پاس ملازم کے قرض کے طور پر رکھتا ہو، اس کو ملازم کی اجازت سے کسی کاروبار میں نہیں لگاتا تو ہر سال موجود رقم کی زکوۃ ساتھ ساتھ بھی ادا کرسکتے ہیں اور وصول ہونے پر گزشتہ تمام سالوں کی زکوۃ ایک ساتھ بھی ادا کرسکتے ہیں۔ لیکن اگر وہ اس رقم کو ملازم کی اجازت سے کسی کاروبار میں لگاتا ہو تو پھر ہر سال کی زکوۃ اسی سال ادا کرنا لازم ہوگا۔      

 اگر اس تیسری صورت میں ملازم اس رقم کی زکوۃ ادا کرنے سے پہلے فوت ہوجائے اور اس نے اس کی زکوۃ ادا کرنے کی وصیت کی ہو تو ورثا پر اس کے کل ترکہ کے ایک تہائی حصے تک اس کی وصیت پوری کرنا لازم ہوگا، لیکن اگر اس نے زکوۃ ادا کرنے کی وصیت نہ کی ہو تو پھر گزشتہ سالوں کی زکوۃ ادا کرنا ورثا کے ذمے لازم نہیں ہوگا، لیکن اگر عاقل، بالغ ورثا اپنے اپنے حصوں سے اس کی طرف سے گزشتہ سالوں کی زکوۃ ادا کردیں تو امید ہے کہ اس کا ذمہ فارغ ہوجائے گا۔   

(باستفادۃٍ من امداد الفتاوی:3/152۔ جواہر الفقہ:3/292-258، مع الإضافات)

حوالہ جات
البحر الرائق (6/ 129):
( وصح التصرف في الثمن قبل قبضه ) لقيام المطلق وهو الملك…… وأطلق التصرف قبل قبضه لقيام المطلق فشمل البيع والهبة والإجارة والوصية وتمليكه ممن عليه بعوض وغير عوض، إلا تمليكه من غير من هو عليه، فإنه لا يجوز .  وأشار المؤلف بالثمن إلى كل دين، فيجوز التصرف في الديون كلها قبل قبضها من المهر والأجرة وضمان المتلفات، سوى الصرف والسلم کما قدمناه. وأما التصرف في الموروث والموصى به قبل القبض فقدمنا جوازه.
بدائع الصنائع (6/ 83):
ولو قال لرجل: اقبض مالي على فلان من الدين واعمل به مضاربة، جاز؛ لأن المضاربة هنا أضيفت إلى المقبوض، فكان رأس المال عينا، لا دينا.

     عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

     2/ رجب المرجب/1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب