021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
اپنے ایک بیٹے کو جائیداد کے کچھ حصے سے محروم کرنے کا حکم
79207ہبہ اور صدقہ کے مسائلہبہ کےمتفرق مسائل

سوال

میں اپنےایک مکان کواپنےدوچھوٹےبیٹوں کےنام کرناچاہتاہوں اوراپنےبڑےبیٹےکواس سےمحروم کرناچاہتاہوں، کیونکہ وہ نافرمان ہے،کوئی کام کاج نہیں کرتا ،بس گھر بیٹھ کر سگریٹ چرس وغیرہ پیتار ہتا ہے۔اپنی بیوی کو تین طلاق دے چکا ہے۔جس کی وجہ سے مجھے اپنی۲۶ مرلہ زمین اس مطلقہ کو حق مہر و نان نفقہ کے طور پر دینی پڑی۔علاوہ ازیں اس کے پانچ بچوں کا خرچہ بھی پچھلے پانچ سالوں سے میں اپنی جیب سے دے رہا ہوں،کیا میرے لئے اپنا ایک مکان اپنے دوچھوٹےبیٹوں کےنام کرنا جائز ہے،جبکہ ۲۶ کنال تو اس کا حصہ بنتا بھی نہیں ہے،میری جائیدادمیں۲کنال زرعی زمین اوردو مکان ہیں اور میرے۳ بیٹے اور ۴بیٹیاں ہیں.

 

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ اگر کوئی شخص زندگی میں اپنی جائیداد اولاد کے درمیان تقسیم کر کے ان کو ہبہ کرنا چاہتا ہے تو اس کے لیے شریعت مطہرہ کی تعلیمات یہ ہیں کہ وہ تمام بیٹے اور بیٹیوں میں برابری کرے ، بلاوجہ کسی کو کم کسی کو زیادہ نہ دے، اور نہ ہی بیٹے اور بیٹیوں میں فرق کرے (یعنی بیٹیوں کو کم دینایا نہ دینا درست نہیں ہے)، اگر بلا وجہ بیٹے اور بیٹیوں میں سے کسی کو کم دے یا محروم کرے تو ظالم اور گناہ گار ہو گا۔ البتہ اگر اولاد میں سے کسی بیٹے یا بیٹی کے زیادہ نیک و صالح ہونے یازیادہ خدمت گزار ہونے کی وجہ سے اس کو دیگر کے مقابلہ میں کچھ زائد دے تو اس کی گنجائش ہے، اسی طرح اگر کسی اولاد کو اس کے فسق و فجور کی وجہ سے دیگر کے مقابلے میں کچھ کم دے تو اس کی بھی گنجائش ہے۔لہذا صورت مسئولہ میں آپ اپنے بڑے بیٹے کو ان کے فسق و فجور کی وجہ سے ایک گھر کے حصہ سے محروم کر سکتے ہیں، خاص طور پر جب آپ ان کے لئے کچھ اس طرح کے بڑے اخراجات کر چکے ہیں جو آپ نے دیگر اولاد کے لئے نہیں کئے ، مگر باقی اولادمیں بلا وجہ تفریق نہ کریں اور جتنی جائیداد آپ اپنے بیٹوں کو دے چکے ہیں یا دینے کا ارادہ رکھتے ہیں اتنی ہی جائیداد اپنی بیٹیوں کو بھی دے دیں۔یاکم ازکم ایک بیٹی کوبیٹےکےحصےکانصف ضروردیں۔

حوالہ جات
درر الحكام شرح مجلة الأحكام (434/2)
لو وهب أحد جميع أمواله في حال صحته لأحد ورثته وسلمه إياها وتوفي بعد ذلك فليس لسائر الورثة المداخلة في الهبة المذكورة) علي أفندي ). مثلا لو وهب من كان له عدة أولاد جميع أمواله لأحدهم في حال صحته وسلمه إياها كانت صحيحة ( البزازية). ومع ذلك فترجيح بعض الأولاد على البعض مكروه كراهة تحريمية ( أبو السعود المصري ) ويكره ذلك عند تساويهم في الدرجة أما عند عدم التساوي كما إذا كان أحدهم مشتغلا بالعلم لا بالكسب لا بأس أن يفضله على غيره أي لا يكره إذا كان التفضيل لزيادة فضل له في الدين . فعليه على الواهب مراعاة المساواة في الهبة لأولاده حتى لو وهب لابنه وابنته يجب أن يعطي البنت كما يعطي الصبي وهذا هو المفتى به (الطحطاوي). وقد روى أحد الصحابة رضى الله عنه { أن أباه قد وهبه مآلا وأراد أن يشهد النبي صلى الله عليه وسلم على هذه الهبة فتمثلت أنا مع أبي في حضور النبي صلى الله عليه وسلم وذكر أبي له الأمر فسأله الرسول صلى الله عليه وسلم ألك أولاد غيره ؟ فأجابه أبي :نعم يارسول الله فقال له هل وهبتهم مثل ماوهبت هذا ؟ فقال أبي : كلا, فقال صلى الله عليه وسلم : هذا جور} أي ظلم ( العناية) . إلا أنه إذا كان أحد الأولاد يفضل غيره في العلم والكمال فلا بأس من ترجيحه على غيره كما بين في الكتب الفقهية مساغا للترجيح ( أبو السعود المصري ) وإن كان في أولاده فاسق لا ينبغي أن يعطيه أكثر من قوته كي لا يصير معينا له في المعصية ولو كان ولده فاسقا فأراد أن يصرف ماله إلى وجوه الخير ويحرمه عن الميراث هذا خير من تركه( الطحطاوي باختصار).
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (696/5)
"ولو وهب في صحته كل المال للمولد جاز وأثم"۔

ولی الحسنین

 دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

    ۳ رجب ۱۴۴۴ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

ولی الحسنین بن سمیع الحسنین

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب