79171 | ہبہ اور صدقہ کے مسائل | ہبہ کےمتفرق مسائل |
سوال
کیافرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگرکسی کی ورثہ میں صرف بیٹیاں ہوں اور بیٹاکوئی نہ ہوتووہ اس نیت سےکہ بیٹیوں کے علاوہ کسی اوروارث کوحصہ نہ ملے یعنی بہن بھائیوں کوحصہ نہ ملے،اس کےلئے وہ اپنی جائیداد اپنی حیات میں بیٹیوں کے نام کردے اورقبضہ اپناہی رکھے توکیاایساکرنادرست ہے،ہم نے سناہے حدیث میں اس پرسخت وعیدآئی ہے،بیٹیوں کے نام کرکے اوران کاوکیل بن کرتجارت کرناصحیح ہے؟
قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب مطلوب ہے۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
بیٹیوں کو اپنی ساری جائیداد ہبہ کرکے مالکانہ حقوق بھی اس طرح دیدیئے جائیں کہ وہ اس جائیداد کے استعمال اورتصرف میں خودمختارہوں تو یہ جائیداد بیٹیوں کی ملکیت میں چلی جائے گی،لیکن کسی وارث کومحروم کرنے کی نیت سے اس طر ح کرناگناہ ہے،حدیث میں شریف میں آتاہے جس نے اپنے کسی وارث کومحروم کیاتواللہ تبارک وتعالی اسے جنت کی میراث سے محروم کرے گا،اس لئے ایسانہ کیاجائے،باقی اگرکسی نے مکمل قبضہ اوراختیارکے ساتھ ہبہ کردی تووہ ان کی ملکیت شمارہوگی،اوروفات کی صورت میں اس جائیداد پرترکہ کے احکام جاری نہیں ہوں گے،اگرصرف زبانی طورپرہبہ کیا،لیکن اختیارات اپنے پاس رکھے توایسی صورت میں یہ ہبہ مکمل نہیں ہوگااوروفات کی صورت میں اس جائیداد پرترکہ کے احکام جاری ہوں گے اورسارے ورثہ میں تقسیم ہوگی۔
حوالہ جات
فی شعب الإيمان لأبو بكر البيهقي - (ج 6 / ص 224)
عن أبي هريرة قال :قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : تعرض الأعمال عشية كل خمسين ليلة الجمعة فلا يرفع فيها قاطع رحم و بهذا الإسناد قال قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : من قطع ميراثا فرضه الله و رسوله قطع الله به ميراثا من الجنة۔
وفی الدر المختار للحصفكي (ج 5 / ص 259):
"(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل."
وفی العناية شرح الهداية (ج 12 / ص 264):
"ولنا قوله عليه الصلاة والسلام { لا تجوز الهبة إلا مقبوضة } والمراد نفي الملك ، لأن الجواز بدونه ثابت ، ولأنه عقد تبرع ، وفي إثبات الملك قبل القبض إلزام المتبرع شيئا لم يتبرع به ، وهو التسليم فلا يصح."
محمد اویس
دارالافتاء جامعة الرشید کراچی
۳/رجب ۱۴۴۴ ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد اویس صاحب | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |