021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مضاربت میں نفع کی تقسیم کا حکم
79308مضاربت کا بیانمتفرّق مسائل

سوال

 ایک شخص کی آٹا چکی ہے، اس نے اپنے تین دوستوں سے بھی مختلف رقوم لے کر کاروبار میں لگائی ہوئی ہیں اس طور پر کہ فی کلو پر ڈیڑھ روپے سرمایہ دار کو دے گا کیا یہ صورت درست ہے ؟ اگر درست نہیں تو اس کی جائز صورت کیا ہوسکتی ہے۔

وضاحت: سائل کی زبانی وضاحت سے معلوم ہوا کہ اُس رقم سے گندم خریدی جاتی ہے پھر کبھی اُسی گندم کو بیچا جاتا ہے اور کبھی اس سے آٹا بناکر بیچا جاتا ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

کاروبار میں رقم لگاکر نفع کو لم سم رقم میں متعین کرنا شرعا جائز نہیں۔ سوال میں مذکور طریقے سے نفع کی تقسیم طے کرنا کہ ہر کلو میں ڈیڑھ روپے نفع دیا جائے  گا بھی نفع  فکس کرنے کی ایک صورت ہے اس لیے یہ طریقہ جائز نہیں ہے۔

اس کا متبادل جائز طریقہ یہ ہے کہ کاروبار میں حاصل ہونے والے نفع کو تمام شرکاء کے درمیان اُن کے سرمایہ کے تناسب سے تقسیم کرنا طے کردیا جائے، اور پھر طے شدہ کاروباری دورانیہ مثلاً مہینہ، تین مہینے بعد کاروبار کا کل نفع معلوم کرکے ، پھر اُس میں سے اخراجات نکال کر جو صافی نفع بچ جائے اُس میں سے ہر شریک کو اسی تناسب سے حصّہ دے دیا جائے جس تناسب سے اس نے کاروبار میں سرمایہ لگایا ہو۔مثلاً اگر کسی شریک کا سرمایہ کاروبار کے کل سرمایہ کے نصف کے برابر ہو تو اس کو حاصل شدہ نفع میں سے نصف دیا جائے۔ واضح رہے کہ جو شرکاء عملاً کام نہ کرے اُن کے لیے نفع ان کے سرمایہ کے تناسب سے کم بھی طے کیا جاسکتا ہے ، لیکن سرمایہ کے تناسب سے زیادہ تناسب طے کرنا جائز نہیں۔

حوالہ جات
(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار)4/312 ط:دار الفکر بیروت)
( وتفسد باشتراط دراهم مسماة من الربح لأحدهما ) لقطع الشركة كما مر لا لأنه شرط لعدم فسادها بالشروط وظاهره بطلان الشرط لا الشركة ، بحر ومصنف ۔ قلت صرح صدر الشريعة وابن الكمال بفساد الشركة ويكون الربح على قدر المال۔۔۔۔وبيان القطع أن اشتراط عشرة دراهم مثلا من الربح لأحدهما يستلزم اشتراط جميع الربح له على تقدير أن لا يظهر ربح إلا العشرة، والشركة تقتضي الاشتراك في الربح وذلك يقطعها فتخرج إلى القرض أو البضاعة كما في الفتح."
بدائع الصنائع (6/ 59)
ومنها أن يكون الربح جزءا شائعا في الجملة لا معينا فإن عينا عشرة أو مائة أو نحو ذلك كانت الشركة فاسدة لأن العقد يقتضي تحقق الشركة في الربح والتعيين يقطع الشركة لجواز أن لا يحصل من الربح إلا القدر المعين لأحدهما فلا يتحقق الشركة في الربح
المجلة (ص: 256)
مادة 1336 بيان تقسيم 1114 الربح 1508 بين الشركاء شرط فإذا بقي مبهما ومجهولا فتكون الشركة فاسدة 109
 مادة 1337 كون حصص الربح 1058 التي تنقسم 1114 بين الشركاء كالنصف والثلث والربع جزءا شائعا 139 شرط فإذا تقاول الشركاء على إعطاء أحدهم كذا قرشا مقطوعا فتكون الشركة باطلة 110

عنایت اللہ عثمانی

دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

09 رجب   1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عنایت اللہ عثمانی بن زرغن شاہ

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب