021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ایک سے زائد مرتبہ نمازِجنازہ پڑھنے کا حکم(نماز جنازہ کاتکرار)
79472.62جنازے کےمسائلجنازے کے متفرق مسائل

سوال

 کیا فرماتے ہیں علمائے کرام درج ذیل مسئلہ کے بارے میں:

ايک صاحب کا انتقال كراچی میں ہوا، ان کے اولياء میں والد اور بھائی زنده تھے ۔ بھائی کراچی میں تھے، والد صاحب گاؤں میں، چناچہ بھائیوں نے کراچی میں نماز جنازه ادا کرلی، جس کا والد صاحب کو علم نہ تھا، نہ ہی والد صاحب سے اجازت لی گئی۔تدفین گاؤں میں ہونی تھی، مرحوم کے والد صاحب کی موجودگی میں  گاؤں میں دوبارہ نماز جنازہ پڑھی گئی۔ ایسی صورت میں دوباره اپنے بیٹے کا جنازه پڑھنے کا شرعی حکم کیا ہے؟ جبکہ اولياء میں سے مرحوم کے بھائی کراچی میں والد کی اجازت کے بغیر نماز جنازه ادا کرچکے تھے۔

کیا اس مسئلہ میں والد کے  ولی اقرب ہونے کی وجہ سے انہیں دوبارہ پڑھنے کا اختیار ہوگا؟ جبکہ کراچی تک پہنچنا ان کے لیے ممکن بھی تھا، اگر اطلاع ہوتی، ساتھ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ تدفین گاؤں میں ہی ہونی تھی۔ فقہاء کی عبارا ت میں  جزئیہ نظر سے نہیں گزرا جہاں  ایسی صورت میں نماز جنازہ دوبارہ پڑھنے کی اجازت ہو، بلکہ ابعد کے پڑھ لینے سے اقرب غائب کا حق بھی ساقط ہو جاتا ہے، لیکن یہ بات بھی پیشِ نظر ہے کہ  صورت مسئولہ میں ابعد کےلیے سفر اختیار کر کے کراچی تک حضور ممکن تھا۔ایسے مسائل میں شرعی حکم کی طرف مفصلاً رہنمائی فرمائیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

ولی کو نمازِ  جنازہ کے اعادہ کا حق صرف اس وقت حاصل ہوتا ہے  جب اس کی اجازت کے بغیر نماز جنازہ ادا کردی گئی ہو ، اور اس کے برابر درجے کا کوئی ولی یا اس سے زیادہ قریب ولی نمازِ جنازہ نہ پڑھ چکا ہو۔

صورتِ مسئولہ میں والد نے نہ تو اجازت دی ہے اور نہ  ہی خود شریک ہوے،لہٰذا والد کا دوبارہ نمازِ جنازہ پڑھنا جائز ہے،اس لیے کہ والد حقِ ولایت  میں دیگر تمام اولیاء سے  مقدم ہے،البتہ اس صورت میں  جولوگ پہلے نمازجنازہ پڑھ چکے ہوں ان کے  لیے ولی کے ساتھ دوبارہ پڑھناجائزنہیں ہوتا۔

حوالہ جات
الدر المختار للحصفكي (2/ 241)
(فإن صلى غيره) أي الولي (ممن ليس له حق التقدم) على الولي (ولم يتابعه) الولي (أعاد الولي) ولو على قبره إن شاء لاجل حقه لا لاسقاط الفرض   ، ولذا قلنا: ليس لمن صلى عليهاأن يعيد مع الولي لان تكرارها غير مشروع (وإلا) أي وإن صلى من له حق التقدم كقاض أو نائبه أو إمام الحي أو من ليس له حق التقدم وتابعه الولي (لا) يعيد لانهم أولى بالصلاة منه.(وإن صلى هو) أي الولي (بحق) بأن لم يحضر من يقدم عليه (لا يصلي غيره بعده) وإنحضر من له التقدم لكونها بحق.
عمدة الرعاية بتحشية شرح الوقاية-لإمام محمد عبد الحي اللكنوي (3/ 101)
قوله: والأحق؛ يعني أن الأحق بالإمامة في صلاة الجنازة السلطان إن حضر؛ لأنه قائم مقام النبي - صلى الله عليه وسلم -، والنبي أولى بالمؤمنين من أنفسهم بنص القرآن، فإن لم يحضر فالقاضي؛ لأنه صاحب ولاية عامة، فإن لم يحضر فإمام المحلة في الصلوات الخمس، وتقديمه على الولي مندوب بشرط أن يكون أفضل من الولي، وإلا فالأولى هو الولي، وأما تقديم الولاة فواجب. كذا في ((المجتبى)) وغيره. قوله: ثم الولي؛ أي ولي الميت وقريبه على ترتيب العصبات، فيقدم الأقرب على الأبعد، ولا ولاية لامرأة أو صبي أو معتوه ونحوه ذلك، والأب يقدم على الابن؛ لكونه أسن على الأصح. كذا في ((البحر)).قوله: بإذنه؛ أي إذا أذن الولي لغيره بالصلاة يؤم ذلك المأذون له؛ لأن الحق للولي فله إسقاط.
شرح الوقاية لعلي الحنفي (2/ 44)
(فإن صلى غيرهم) أي غير هؤلاء الذين ذكروا من السلطان، والقاضي، وإمام الحي، والولي (يعيد الولي إن شاء) لأن الولاية في الحقيقة له. وإذا كان للولي أن يعيد إذا صلى غيرهم، كان لمن يتقدم على الولي أن يعيد أيضا. وهذا إذا لم يرض به، فلو تابعه وصلى معه فلا يعيد. وفي «القنية»: ليس لمن صلى عليها أن يصلي مع الولي مرة أخرى.

      عدنان اختر

دارالافتاءجامعۃ الرشیدکراچی

۲۱؍رجب ؍۱۴۴۴ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عدنان اختر بن محمد پرویز اختر

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب