021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مسجد کو لڑکیوں کے لیے مدرسہ بنانے کا حکم
79514وقف کے مسائلمسجد کے احکام و مسائل

سوال

علمائے کرام اور مفتیانِ عظام مسئلۂ ھذا کے بارے میں کیا فرماتے ہیں کہ ہمارے گاؤں میں ایک قدیم مرکزی مسجد تھی، جس میں گاؤں والے عید کی نماز اور ماہِ رمضان میں تراویح اور نمازیں پڑھتے تھے، اور کبھی قاری صاحب بچوں کو مسجد میں قرآن پاک پڑھاتے تھے، لیکن سال کا زیادہ حصّہ مسجد غیر آباد رہتی تھی، یہ قدیم مسجد سڑک سے دور تھی۔ اہلِ علاقہ نے مین روڈ پر ایک مرکزی جامع مسجد تعمیر کی، جس میں جمعہ و عیدین اور پانچ وقت نماز و اذان ہوتی ہے، اور بچوں کو قرآن پاک کی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔ اِس نئی مسجد کی تعمیر کے بعد قدیم مسجد بالکل غیر
آباد ہو گئی تھی، نہ وہاں اذان، نہ نماز، اور نہ ہی قرآن پاک کی تعلیم دی جاتی تھی۔ اس پر نئی مرکزی جامع مسجد کے امام اور چند افراد نے قدیم مسجد کی تعمیر و آبادی کی یہ صورت اختیار کی کہ قدیم مسجد میں چھوٹی  و بڑی لڑکیوں کا ایک غیر رہائشی مدرسہ بنایا جائے، اور علاقے کی بچیوں کو دینی و عصری تعلیم دی جائے۔ یہاں پر چھوٹی، بڑی لڑکیوں کو معلمہ صاحبہ بھی پڑھاتی ہیں، اور گاہے بگاہے مرکزی جامع مسجد کے امام بھی آمنے سامنے باپردہ لڑکیوں کی کلاس لیتے ہیں۔ قدیم مسجد میں اب بھی اذان و نماز نہیں ہوتی۔ اہلِ علاقہ دینی اعتبار سے اتنا شعور نہیں رکھتے۔ لہٰذا مذکورہ بالا صورتِ حال میں دو سوالات آپ کی خدمت میں عرض ہیں، قرآن و سنت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں!

کیا مسجد کو نماز و اذان کی بجائے لڑکیوں کے دینی و عصری تعلیم کے لیے غیر رہائشی مدرسہ بناکر آباد کرنا شرعاً درست ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

جو جگہ ایک مرتبہ مسجد بن جاتی ہے، وہ قیامت تک مسجد ہی رہتی ہے، اور جب تک وہ جگہ بالکل ویران نہ ہوجائے اُسے منتقل کرنا جائز نہیں ہوتا، اور ویران مسجد کو منتقل کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اُس کاملبہ اور اُس کا سامان دوسری جگہ منتقل کیا جاسکتا ہے، لیکن اُس جگہ کی حیثیت تاقیامت مسجد کی ہی رہے گی، آپ نے جو صورتِ حال لکھی ہے، اُس کے مطابق مسجد اگرچہ ویران ہے، لیکن اُس جگہ کی حیثیت مسجد کی ہی رہے گی، اس لیے ایسی مسجد کو بچیوں کی تعلیم کے لیے مختص کرنا جائز نہیں ہے، لہٰذا اس کے لیے دوسری کوئی جگہ بنالی جائے۔

حوالہ جات
رد المحتار (17/224):
"لأهل المحلة تحويل باب المسجد. خانية. وفي جامع الفتاوى: لهم تحويل المسجد إلى مكان آخر إن تركوه بحيث لا يصلى فيه ."
الفتاوى الهندية (2/458):
"وإذا خرب المسجد واستغنى أهله، وصار بحيث لا يصلى فيه، عاد ملكا لواقفه أو لورثته، حتى جاز لهم أن يبيعوه أو يبنوه دارا. وقيل: هو مسجد أبدا، وهو الأصح، كذا في خزانة المفتين في فتاوى الحجة: لو صار أحد المسجدين قديما وتداعى إلى الخراب، فأراد أهل السكة بيع القديم وصرفه في المسجد الجديد، فإنه لا يجوز، أما على قول أبي يوسف - رحمه الله تعالى -؛ فلأن المسجد وإن خرب واستغنى عنه أهله، لا يعود إلى ملك الباني، وأما على قول محمد - رحمه الله تعالى -؛ وإن عاد بعد الاستغناء، ولكن إلى ملك الباني وورثته، فلا يكون لأهل المسجد على كلا القولين ولاية البيع. والفتوى على قول أبي يوسف - رحمه الله تعالى - أنه لا يعود إلى ملك مالك أبدا، كذا في المضمرات في الحاوي."
الفتاوى الهندية (1/38):
"يحرم عليهما [الحائض والنفساء] وعلى الجنب الدخول في المسجد، سواء كان للجلوس أو للعبور، هكذا في منية المصلي."

محمد مسعود الحسن صدیقی

دارالافتاء جامعۃ الرشید، کراچی

23/رجب الخیر/1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد مسعود الحسن صدیقی ولد احمد حسن صدیقی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب