021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
جبر یونین کونسل کی زمینوں کے تنازعات کا شرعی حل
79539بنجر زمین کو آباد کرنے کے مسائلشاملات زمینوں کے احکام

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اور مفتیانِ شرعِ متین درجِ ذیل مسائل کے بارے میں.. سوالات سے پہلے بطورِ تمہید عرض ہے کہ خیبرپختونخواہ ضلع اپردیر عشیری درہ میں ایک علاقہ ہے: "جبر یونین کونسل"، اُس میں ایک دریا ہے، اس کے ایک طرف ایک گاؤں واقع ہے، جس کا نام "جبر" ہے۔ اِس گاؤں میں اکثر سلطان خیل قوم آباد ہے۔ جبر سے شمال کی طرف دامنِ کوہ میں ایک گاؤں "سنگارام" نام سے آباد ہے، جس میں سلطان خیل، وردگ اور کاٹنی قومیں آباد ہیں۔ جبر سے شمال مشرق کی طرف گاؤں "نشان بانڈہ" ہے، جس میں سلطان خیل، تاجک اور مشکی خیل قومیں آباد ہیں۔ جبر سے مغرب کی طرف "ٹانگی" گاؤں ہے، جس میں میران قوم آباد ہے۔ جبر سے جنوب مغرب کی طرف دریا سے پار "کارین" گاؤں ہے، جہاں نایان اور اینگر قومیں آباد ہیں۔ اور جنوب مغرب کی طرف دامنِ کوہ میں ایک گاؤں "سیاہ جبر" ہے، جہاں شیخان قوم آباد ہے۔ اور جبر سے مشرق کی طرف "خوڑ گاؤں" ہے، جس میں سلطان خیل، گورسی خیل، وانا خیل، بجاڑ خیل، متلا خیل اور شیخ قومیں آباد ہیں۔ اور مشرق کی طرف دامنِ کوہ میں "لیکر کوڑ" گاؤں ہے، جس میں تاجک اور کاٹنی قومیں آباد ہیں۔ اور شمال مشرق کی طرف ایک گاؤں "کلال بانڈی" ہے، جس میں سلطان خیل، فائندہ خیل، صاحب زادگان، میران، گوجر، سواتی، اتمان خیل اور وردگ قومیں آباد ہیں۔

(نوٹ: سلطان خیل قوم "پختون" کے نام سے موسوم ہے، جبکہ دوسری ذکر کردہ تمام اقوام "فقیر نامہ" سے موسوم ہے، اس لیے آئندہ ان ناموں سے ان کا تذکرہ ہوگا)۔

اب چند گذارشات خدمت میں عرض کی جاتی ہے کہ یہ مندرجہ بالا تمام قومیں یہاں صدیوں سے آباد ہیں، کونسی قوم پہلے آئی ہے؟ کونسی بعد میں آئی ہے؟ اس کا ثبوت کسی کے پاس نہیں۔ تاہم مندرجہ بالا اقوام میں سے دو قومیں: شیخان اور تاجک اس بات کے مدعی ہیں کہ ہمارے آباؤ اجداد نے جہاد کرکے یہ علاقہ ہندوؤں سے چھڑا کر آزاد کیا ہے۔ چنانچہ یہاں اب یہ قانون ہے کہ "سلطان خیل (پختون)" جبر (گاؤں) سے پہاڑوں کے سِروں اور چوٹیوں بلکہ جنگلات سمیت آباد اور غیر آباد (بنجر) تمام زمین کی ملکیت کے دعویدار ہیں، اور سلطان خیل قوم (پختون) اپنی قوم کے علاوہ باقی تمام اقوام کو اپنا فقیر اور ماتحت گردانتی ہے۔ البتہ بعض لوگوں کو "سیری" کے نام سے کچھ زمینیں دیتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ دوسری قوموں (فقیر نامہ) میں سے بعض قوم: شیخان، میران وغیرہ ہیں، جو علاقے میں معزز سمجھے جاتے تھے، لہٰذا اہلیانِ جبر (پختون قوم) کے آباؤ  اجداد نے اِن قوموں کو اُن کے قومی اعزاز کی وجہ سے کچھ زمینیں دی تھیں۔ لیکن اب موجودہ اہلیانِ جبر (پختون) میں سے بعض یہ سیری بھی نہیں مانتے اور اُن زمینوں کی ملکیت کا دعویٰ کرتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ تمہارے آباؤ اجداد نے ہمارے آباؤ اجداد کی فقیری و غلامی یعنی ماتحتی تسلیم کی تھی، اس لیے  انہیں یہ زمینیں مل گئی تھیں، اور تم چونکہ ہماری فقیری کو تسلیم نہیں کرتے ہو، اس لیے ان زمینوں پر تمہارا کوئی حق نہیں۔

اس کے علاوہ عمومی صورتحال یہ ہے کہ فقیر نامہ میں سے جو کوئی قوم گھر بناتی ہے یا زمین آباد کرکے کھیت بناتی ہے، تو یہ سلطان خیل (پختون قوم) اس پر پابندی لگاتی ہے۔ اور پختون قوم فقیر قوم کو وہ بنجر زمین فروخت کرکے قیمت وصول کرتی ہے۔ اور جو غیر آباد زمینیں پہلے سے ان قوموں نے آباد کی ہوتی ہیں، سلطان خیل قوم (پختون قوم) ان سے اجارہ پر لیتی ہے، اور ساتھ ہی اُس قوم کے افراد کو اِس زمین کی خدمت پر بھی مامور کرتی ہے، اِس کو یہاں کے عُرف میں "بیمار" کہا جاتا ہے۔

اس صورتحال سے تنگ آکر دوسری اقوام کے بعض لوگوں نے ان (پختون قوم) سے قیمتاً کچھ زمینیں خریدی بھی ہیں، بعض نے خوشی سے جبکہ بعض نے بادلِ ناخواستہ خریدی ہیں۔ ان تمام تر تمہیدات کے بعد ہمیں مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات مفصل و مدلل شریعت کی روشنی میں مطلوب ہیں:

1. ملکیت کے اسباب شرعاً کون کونسے ہیں؟ اور کیا وہ اسباب اُن صورتوں پائے جاتے ہیں جن میں جبر قوم دوسری قوموں کی آباد کردہ زمینوں یا اُن کی غیر آباد زمینوں، پہاڑوں اور جنگلات کو چھین کر حاصل کرتے ہیں؟

2. جبر والوں کا دوسری قوموں کو وہ زمینیں بیچنا جو انہوں نے ہی آباد کی ہوں یا بنجر اور غیر آباد زمینیں اُن کو بیچنے کا کیا حکم ہے؟  یعنی قیمت لے کر اُن کو بیچنا جائز ہے یا نہیں؟ اور جو قیمت وہ وصول کرتے ہیں، وہ ان کے لیے حلال ہے یا نہیں؟

3. جبر قوم کا کوئی فرد زمین فروخت ہونے کے کئی عرصے بعد شفعہ کا دعویٰ دائر کرکے جبراً وہ زمین واپس لے لیتا ہے، یا حقِ شفعہ چھوڑنے کی وجہ سے اُس کا عوض لیتا ہے، کیا ایسا کرنا درست ہے؟

4. پختون قوم دوسری قوموں کی آباد کردہ زمینوں کو چونکہ اپنی ملکیت سمجھتی ہے، لہذا وہ اُن زمینوں کو اپنی تحویل میں لے کر کبھی تو اُسی کو جس نے وہ زمین آباد کی تھی یا وہ اُس زمین کا مالک تھا، اجارہ پر دے دیتی ہے، اور کبھی کسی اور کو اجارہ پر دے دیتی ہے؟ کیا یہ اجارہ شرعاً درست ہے؟

5. جبر قوم اگر کوئی زمین کسی کو فروخت کرتی ہے تو ان کی قوم کا کوئی فرد کئی سال بعد آکر یہ دعویٰ کرتا ہے کہ فروخت شدہ زمین میں میرا بھی حصہ تھا، اور وہ مَیں نے نہیں بیچا تھا، لہٰذا وہ اپنے حصے کی زمین دوبارہ فروخت کرکے دوبارہ قیمت وصول کرتا ہے، چنانچہ ایک ہی زمین کئی بار فروخت ہوتی ہے۔ کیا ایسا کرنا جائز ہے؟

6. دوسری قوموں (فقیر نامہ) میں سے بعض لوگ جہالت یا اہلِ جبر سے خوف کی بناء پر یہ کہہ دیتے ہیں کہ یہ سب زمینیں جبر والوں کی ہیں؛ کیونکہ وہ جائیداد والے ہیں، مالدار ہیں، ہم ان سے کسی طرح مقابلہ نہیں کرسکتے، لہٰذا ہم ان کے فقیر ہی ہیں، چنانچہ جبر والے اِس کو بھی بنیاد بناکر یہ کہتے ہیں کہ بعض لوگوں نے ہماری ملکیت تسلیم کرلی ہے، اس لیے مخالفین کا دعویٰ صحیح نہیں۔ کیا بعض لوگوں کے کہنے سے خاص طور پر جبکہ ناخبری اور خوف عام ہو، تمام علاقے پر جبر والوں کی ملکیت ثابت ہو ہوجائے گی؟

7. ایک مسئلہ یہاں یہ بھی درپیش ہے کہ سلطان خیل "جبر گاؤں" میں بھی ہے اور "کمال بانڈی گاؤں" میں بھی، لہٰذا ان میں سے ہر ایک دوسرے کی زمینوں میں اپنا حصہ سمجھتا ہے؛ کیونکہ قومیت دونوں کی ایک ہے۔ کیا محض قومیت کی بنیاد پر دوسروں کی جائیداد میں اپنے حصے کا مطالبہ کرنا درست ہے؟

8. اہلیانِ جبر تمام علاقوں کی ملکیت کا دعویٰ کرتی ہے، دوسرے گاؤں کے ساتھ متصل جو چراگاہیں ہیں، ان پر بھی اِن کی طرف سے پابندی ہوتی ہے۔ چنانچہ اگر بعض خواتین ضرورت کی بناء پر ایندھن وغیرہ جمع کرنے کے لیے اُن جگہوں میں جاتی ہیں تو اہلیانِ جبر ان عورتوں سے جمع کردہ ایندھن، لکڑیاں، کلہاڑی اور آری وغیرہ ضبط کرلیتے ہیں اور مالی جرمانہ بھی عائد کرتے ہیں۔ نیز پختون قوم نے یہ فرمان بھی جاری کر رکھا ہے کہ مذکورہ علاقۂ غیر آباد میں کوئی بھی ہماری اجازت کے بغیر کسی درخت کو نہ بوئے، اگر کوئی اس حکم کی خلاف ورزی کرکے درخت لگائے گا تو وہ درخت اس کا نہیں ہوگا، بلکہ وہ ہمارا ہو گا۔ کیا جبر والوں کی طرف سے یہ پابندیاں شرعاً درست ہیں؟

9. دیگر گاؤں جس میں جبر والے نہیں رہتے اُس کے ساتھ متصل جو چراگاہیں، پہاڑ اور جنگلات ہیں، کیا یہ صرف اسی گاؤں والوں کی چراگاہیں ہیں یا جبر والوں کا بھی اُس میں حصہ ہے؟

10. اگر حکومت فقیر نامہ قوم کی آباد کردہ زمین جبر والوں کو دے دے،  تو کیا حکومت ایسا کرسکتی ہے؟ اور کیا پختون قوم ان زمینوں کی مالک بن جائے گی؟

11. مذکورہ بنجر زمینیں جو دوسری قوموں نے آباد کی ہیں، ان میں وراثت اور وقف کا اعتبار کس طرح کیا جائے گا؟ بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ زمینیں چونکہ اہلیانِ جبر کی ہیں، اس لیے اس کی وراثت بھی ان میں جاری ہوتی ہے۔ حالانکہ دوسرے بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ ہماری اپنی زمینیں ہیں، اس لیے ہم ہی شرعاً اس میں ہر طرح کا تصرف یعنی اس کی خرید و فروخت یا مسجد و مدرسہ وغیرہ بنانے میں خود مختار ہیں۔ نیز وراثت میں بھی یہ زمینیں ہمارے ورثاء کو ملیں گی، نہ کہ اہلیانِ جبر کو۔ خلاصہ یہ کہ فقیر نامہ اپنی آباد کردہ زمینوں میں پختون قوم کی اجازت کے بغیر تصرف کے اہل ہیں یا نہیں؟

12. جبر والوں نے ایک صورت یہ بھی رائج کر رکھی ہے کہ وہ اصل مالکانِ زمین کے کھیتوں میں جو کچھ سبزی وغیرہ اُگتی ہے، یا کچھ اور چیزیں مثلاً: اخروٹ، لکڑیاں وغیرہ، تو جبر ولے اُس میں اپنا حق سمجھتے ہیں، لہٰذا وہ اُس کا کچھ حصہ زبردستی لے لیتے ہیں، اِس کو یہاں کے عُرف میں "بیگار" کہا جاتا ہے، کیا یہ بیگار لینا جائز اور حلال ہے؟

13. اگر جبر قوم کی کوئی مخالفت کرے، تو وہ ڈاکٹرز وغیرہ سب کو اُس مخالف شخص کا علاج و معالجہ کرنے پر پابندی لگا دیتے ہیں۔ یہاں تک کہ مخالفین کی مسجد میں اگر امامِ مسجد اہلیانِ جبر سے ہو، اُس کو امامت و خطابت کرانے سے بھی روک دیتے ہیں۔ کیا ایسا کرنا درست ہے؟

14. اسی طرح جبر قوم کی مسجد میں اگر فقیر نامہ قوم کا کوئی فرد امام ہو، اور وہ اپنی قوم کا کوئی ایسا مطالبہ برحق سمجھتا ہو، جس کی اہلِ جبر مخالفت کرتے ہوں، تو وہ اُس امامِ مسجد کو اُس منصب سے نکال دیتے ہیں۔ کیا برحق مطالبہ کرنے پر امامِ مسجد کو نکال دینا درست ہے؟

15. کسی قوم کی چراگاہ، فناءِ شہر وغیرہ کی حدود کیا ہیں؟

16. نیز چند لوگوں کا آپس میں صرف یہ کہہ کر اتفاق کرلینا کہ یہاں سے لے کر فلاں جگہ تک زمین آپ کی ہے اور فلاں حصۂ زمین میرا ہے، جبکہ عملی طور پر اس میں کوئی بھی کام نہ کرے، مثلاً: درخت و غیره سارے خودرؤ ہوں، تو اِس طرح جنگلات اور بنجر زمینوں کو تقسیم کرنا کیسا ہے؟ اور کیا نفسِ تقسیم سے یہ لوگ مالک ہو جاتے ہیں یا دوسرے لوگوں کو بھی چراگاہ اور جنگلات وغیرہ سے فائدہ اٹھانے کے اختیارات ہوتے ہیں؟

17. فریقین کے علاوہ بعض لوگ جرگہ کے لیے پیش ہوتے ہیں، جن میں کچھ مقتداء یعنی علماء بھی ہوتے ہیں، اور وہ کہتے ہیں کہ ہم نے بھی عرصۂ دراز سے یہی سنا اور دیکھا ہے کہ پورے علاقے کے جبر والے مالک ہیں۔ لہٰذا اہلیانِ جبر برحق ہیں اور دوسری قومیں غاصب اور ناحق ہیں۔ تاہم وہ علماء دوسری قوموں سے کہتے ہیں کہ ہم جبر والوں کی منت سماجت کرکے کچھ زمین وغیرہ لینے کی کوشش کریں گے۔بشرطیکہ آپ ہمیں ہر طرح کا فیصلہ کرنے کا اختیار سونپ دیں اور وہ فیصلہ آپ کو ہر حال میں ماننا ہوگا۔ سوال یہ ہے کہ صلح کے لیے کے لیے شریعت کیا اُصول ہیں جن کی پاسداری سب پر لازم ہے؟

18. جبر قوم نے ایک یہ طریقہ اپنا رکھا ہے کہ جب جس کی مرضی ہوتی ہے، وہ دوسری قوموں کے کسی بھی فرد کو قرض دینے پر مجبور کرتا ہے، اور اگر وہ قرض نہ دے سکے تو طرح طرح کی اذیتیں پہنچاتا ہے، چنانچہ اُس شخص کو مجبوراً قرض دینا پڑتا ہے، پھر بسااوقات مقروض وہ قرض واپس کردیتا ہے اور اکثر اوقات واپس نہیں کرتا۔ کیا کسی سے زبردستی قرض کا مطالبہ کرنا درست ہے؟ نیز قرض لے کر اُس کو واپس نہ کرنے کا کیا حکم ہے؟

19. ایک آزاد مسلمان کو غلام سمجھنے اور اُس کے ساتھ غلامانہ رویہ رکھنے کا کیا حکم ہے؟

20. جبر قوم دوسری قوموں کو غلط اور نامناسب الفاظ سے پکارتی ہے، مثلاً: تم ہمارے فقیر ہو، تم حرامی ہو، ظالم اور غاصب ہو، حرام خور ہو وغیرہ وغیرہ، کیا کسی کو اِس طرح کہنا درست ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مذکورہ بالا سوالات چونکہ ایک فریق کے ہیں، اور دوسرے فریق کا کوئی دعویٰ یا مطالبہ ہمارے سامنے نہیں ہے، لہٰذا ذیل میں اصولی جواب دیا جا رہا ہے، اپنا قضیہ اور ذیل میں مذکور اصول کو کسی پنچائیت، جرگہ یا عدالت کے سامنے پیش کرکے اس مسئلہ کا حل دریافت کریں۔
اصل نمبر 1:
شریعت میں کسی مال کی ملکیت قائم ہونے کا سبب یا تو ملکیت کا کسی کی طرف سے انتقال ہے، جیسے بیع اور ہبہ، یا خلافت اور جانشینی ہونا ہے، جیسے ورثہ، یا احراز اور احیاء ہے، لہٰذا اگر کسی کے حق میں ان میں سے کوئی سبب بھی نہ پایا جائے تو پھر اس کی ملکیت شرعاً معتبر نہیں، اور وہ ملکیت شرعاً کالعدم ہے۔
اصل نمبر 2:
اراضی کی چار قسمیں ہیں:
1. اراضئ شخصیہ: یعنی ذاتی ملکیت والی زمینیں، یہ زمین جس کی ملکیت میں ہوتی ہے، وہی شرعاً اُس کا مالک ہوتا ہے، لہٰذا حکومت یا کسی اور کا مالک سے ایسی زمین چھیننا جائز نہیں ہے۔
2. اراضئ مباحہ: یعنی ایسی زمینیں جن سے بستی کے مشترکہ حقوق متعلق ہوں، مثلاً: چراگاہ، یہ زمین اگرچہ ابتداءً کسی کی مملوک نہیں ہوتی، لیکن اگر کوئی شخص اس کو اپنے تصرف میں لاتا ہے تو وہ اُس کی ملکیت میں آجاتی ہے، لہٰذا ایسی زمین بھی اگر کسی کی ملکیت میں ہو تو حکومت یا کوئی اور فرد اُس سے چھین نہیں سکتا۔
3. اراضئ موات: یعنی وہ غیر مملوک زمینیں جو غیر آباد ہوں، اس کا حکم یہ ہے کہ جب کوئی شخص اس زمین کو آباد کرتا ہے تو وہ اس کا شرعاً مالک بن جاتا ہے، اس لیے حکومت یا کسی اور فرد کے لیے مالک سے زمین چھین کر اپنی تحویل میں لینا جائز نہیں ہے۔
4. اراضئ سلطانیہ: یعنی سرکاری زمینیں۔ ایسی زمینوں کا حکم یہ ہے کہ حکومت کو شرعی اصول و قواعد کے مطابق کسی کی ملکیت کرنے کا حق حاصل ہوتا ہے، لہٰذا اگر کسی کے حق میں حکومت کی طرف سے کسی اراضئ سلطانیہ کا حقیقی مالک قرار دینا ثابت ہوجائے، اور وہ شرعی اصول و قواعد کے مطابق بھی ہو، تو ایسا شخص اس اراضئ سلطانیہ کا شرعی مالک قرار دیا جاسکتا ہے۔

اصل نمبر 3:
ظاہراً کاغذوں میں کسی کے نام کے ساتھ صر ف مالک کے الفاظ لکھنے سے شرعاً اُس کی ملکیت ثابت نہیں ہوتی، اور حقیقی مالک وہی لوگ شمار ہوتے ہیں جو پہلے سے ان اراضی پر قابض و متصرف تھے، اور ان کو مالکانہ حقوق مثلاً: خرید و فروخت، ہبہ، میراث وغیرہ کے حقوق حاصل ہیں۔ کیونکہ فقہ کا قاعدہ ہے کہ "القدیم يترك علی قدمه"، یعنی جو معاملہ اتنا قدیم ہوکہ اُس کی ابتداء کا جاننے والا کوئی نہ ہو، تو اُس کو موجودہ حالت کے مطابق اُسی شخص کی ملکیت میں چھوڑا جائے گا جو عرصۂ دراز سے اُس پر مالکانہ تصرف کرتا چلا آرہا ہو، اور اگر اس میں کچھ لوگوں کا اختلاف ہوجائے تو "القول قول القابض" کے قاعدے کے تحت جو شخص قابض ہوگا، وہی مالک قرار پائے گا۔
لیکن مفروضہ(Presumption) اس کے حق میں یہ ہے کہ وہ واقعۃً اُس زمین کا مالک ہو، لہٰذا اگر کوئی شخص دوسرے کی زمین پر ناجائز قبضہ کرکے سالہا سال بیٹھا رہے تو وہ اُس کا مالک نہیں ہوسکتا۔ چنانچہ مشہور مالکی فقیہ علامہ ابنِ فرحونؒ فرماتے ہیں کہ اگر ناجائز قبضہ بھی طویل ہوجائے تو وہ بھی غاصب کو سندِ جواز نہیں دے سکتا۔ علامہ ابنِ فرحونؒ اس بحث کو اس جملے پر ختم کرتے ہیں:
"وإنما حيازة التقادم الذي جاء فيها الأثر، من حاز على خصمه عشر سنين فهو أحق به منه، فيما يحوزه الناس من أموال بعضهم على بعض، من أجل أن الحائز لذلك يستغني بالحيازة عن أصل وثيقته التي صار بها إليه ذلك من شراء أو هبة، ولا تكون الحيازة في أفعال الضرر حيازة، بل لا يزيد تقادم الضرر إلا ظلما وعدوانا. تبصرة الحكام في أصول الأقضية ومناهج الأحكام (5/449).
"کسی دوسرے کو نقصان پہنچا کر قبضہ کرنا (اُس) قبضے میں داخل نہیں جس کو ملکیت کی علامت سمجھا جاتا ہے، بلکہ ضرر رسانی خواہ کتنی پرانی ہوجائے، زمانے کے گزرنے سے اُس کے ظلم اور زیادتی ہونے میں اور اضافہ ہوجاتا ہے۔"
ان اصولوں کی روشنی میں کسی قوم کا دوسری قوم کی آباد کردہ زمینوں کو چھین لینا یا ان لوگوں کو فروخت کرنا یا کرایہ پر دینا  جائز نہیں ہے، اسی طرح شفعہ کے نام پر زمین لینا بھی جائز نہیں ہے۔ یا قومیت کی بنیاد پر زمین کا حقدار سمجھنا بھی درست نہیں ہے، کیونکہ ان سب صورتوں میں اسبابِ ملکیت میں سے کوئی سبب نہیں پایا جا رہا۔
اسی طرح حکومت  بھی کسی کی آباد کردہ زمین اُس سے چھین کر دوسرے شخص کو نہیں دے سکتی، جیساکہ اصل نمبر 2 کے تحت گزرچکا ہے۔
ان اصولوں کی روشنی میں جرگہ یا پنچائیت کا فریقین کے درمیان فیصلہ کرنا لازم ہے؛ اس لیے کہ صلح کروانے کے لیے ضروری ہے کہ صلح کروانے والا شریعت کے تمام احکامات کی روشنی میں فیصلہ کرکے فریقین کو انصاف فراہم کرے، کیونکہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے اُس صلح کو غیر نافذ قرار دیا ہے جس کی وجہ سے حرام کو حلال کردیا جائے یا حلال کو حرام کہا جائے۔ نیز جو فیصلہ شریعت کے مطابق کیا جائے، فریقین پر لازم ہے کہ اُس کو کھلے دل سے قبول کریں۔ 

حوالہ جات
بدائع الصنائع (6/192):
"الكلام في موضعين: في بيان أنواع الأراضيخ وفي بيان حكم كل نوع منها. أما الأول: فالأراضي في الأصل نوعان: أرض مملوكة، وأرض مباحة غير مملوكة. والمملوكة نوعان: عامرة وخراب. والمباحة نوعان أيضا: نوع هو من مرافق البلدة محتطبا لهم ومرعى لمواشيهم، ونوع ليس من مرافقها، وهو المسمى بالموات. أما بيان حكم كل نوع منها: أما الأراضي المملوكة العامرة، فليس لأحد أن يتصرف فيها من غير إذن صاحبها؛ لأن عصمة الملك تمنع من ذلك، وكذلك الأرض الخراب الذي انقطع ماؤها ومضى على ذلك سنون؛ لأن الملك فيها قائم وإن طال الزمان، حتى يجوز بيعها وهبتها وإجارتها، وتصير ميراثا إذا مات صاحبها."
البحر الرائق (5/278):
"الأسباب ثلاثة مثبت للملك، وهو الاستيلاء، وناقل للملك، وهو البيع ونحوه، وخلافة، وهو الميراث والوصية."
الأشباه والنظائر (ص:286):
"أسباب الملك ثلاثة مثبت للملك من أصله، وهو الاستيلاء على المباح، وناقل بالبيع والهبة ونحوهما، وخلافه كملك الوارث، فالأول شرطه خلو المحل عن الملك، فلو استولى على حطب جمعه غيره من المفازة لم يملكه."
الدر المختار (6/463):
"اعلم أن أسباب الملك الثلاثة ناقل كبيع وهبة، وخلافة كإرث، وإصالة وهو الاستيلاء حقيقة بوضع اليد أو حكما بالتهيئة كنصب شبكة لصيد."
رد المحتار (27/239):
"(قوله: وهو الاستيلاء حقيقة) شمل إحياء الموات، فلا حاجة إلى عده قسما رابعا كما فعل الحموي."
المبسوط للسرخسي (23/296):
"وعن عمر - رضي الله عنه – قال: من أحيا أرضا ميتة فهي له، وليس بعد ثلاث سنين حق. والمراد بالمحجر: المعلم بعلامة في موضع، واشتقاق الكلمة من الحجر وهو المنع، فإن من أعلم في موضع من الموات علامة، فكأنه منع الغير من إحياء ذلك الموضع، فسمى فعله تحجيرا. وبيان ذلك أن الرجل إذا مر بموضع من الموات، فقصد إحياء ذلك الموضع، فوضع حول ذلك الموضع أحجارا، أو حصد ما فيها من الحشيش والشوك، وجعلها حول ذلك، فمنع الداخل من الدخول فيها، فهذا تحجير، ولا يكون إحياء؛ إنما الإحياء أن يجعلها صالحة للزراعة، بأن كربها أو ضرب عليها المسناة أو شق لها نهرا، ثم بعد التحجير له من المدة ثلاث سنين، كما أشار إليه عمر - رضي الله عنه-."
البحر الرائق (8/240):
"وفي الغياثية: لو أقطع الإمام رجلا أرضا، فتركها ثلاث سنين لا يعمر فيها، بطل الانتفاع."
بدائع الصنائع (6/195):
"ولو حجر الأرض الموات، لا يملكها بالإجماع؛ لأن الموات يملك بالإحياء؛ لأنه عبارة عن وضع أحجار أو خط حولها يريد أن يحجر غيره عن الاستيلاء عليها، وشيء من ذلك ليس بإحياء، فلا يملكها، ولكن صار أحق بها من غيره ... وإذا صار أحق بها، فلا يقطعها الإمام غيره، إلا إذا عطلها المتحجر ثلاث سنين ولم يعمرها."
بدائع الصنائع (6/194):
"ولو أقطع الإمام الموات إنسانا، فتركه ولم يعمره، لا يتعرض له إلى ثلاث سنين، فإذا مضى ثلاث سنين، فقد عاد مواتا كما كان، وله أن يقطعه غيره؛ لقوله عليه الصلاة والسلام: ليس لمحتجر بعد ثلاث سنين حق."
فتح القدير (22/334):
"والتحجير الإعلام، سمي به؛ لأنهم كانوا يعلمونه بوضع الأحجار حوله، أو يعلمونه لحجر غيرهم عن إحيائه، فبقي غير مملوك كما كان، هو الصحيح."
الجوهرة النيرة (3/427):
"فإذا تركها هذا القدر، فالظاهر أنه قصد إتلافها وموتها، فوجب على الإمام إزالة يده عنها، وهذا كله ديانة، أما إذا أحياها غيره قبل مضي هذه المدة، ملكها، وإنما هذا كالاستيام فيكره، ولو فعله جاز العقد."
فتح القدير (22/334):
"قالوا: هذا كله ديانة، فأما إذا أحياها غيره قبل مضي هذه المدة، ملكها؛ لتحقق الإحياء منه دون الأول، وصار كالاستيام فإنه يكره، ولو فعل يجوز العقد."
الأشباه والنظائر (ص:222):
"الحق لا يسقط بتقادم الزمان."
صحیح ابن حبان (13/316):
عن أبي حُمَيد الساعدي، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال:  «لَا يَحِلُّ لِامْرِئٍ أَنْ يَأْخُذَ عَصَا أَخِيهِ بِغَيْرِ طِيبِ نَفْسٍ مِنْهُ».
سنن أبي داود (3/304):
عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «الصُّلْحُ جَائِزٌ بَيْنَ المسْلِمِينَ» زاد أحمد: «إِلَّا صُلْحًا أَحَلَّ حَرَامًا، أَوْ حَرَّمَ حَلَالًا».
كنز الدقائق (ص:465):
"حكّما رجلًا ليحكم بينهما، فحكم ببيّنةٍ أو إقرارٍ أو نكولٍ في غير حدٍّ وقودٍ وديةٍ على العاقلة صحّ."
البحر الرائق (7/24):
"وشرطه ... من جهة المحكم بالفتح صلاحيته للقضاء بكونه أهلا للشهادة ... وتشترط الأهلية وقته ووقت الحكم جميعا."
روح المعاني (5/36):
"فابعثوا حكما من أهله وحكما من أهلها، فابعثوا متوسطين من المشايخ والسالكين إن يريدا إصلاحا يوفق الله تعالى بينهما، وهمة الرجال تقلع الجبال."

محمد مسعود الحسن صدیقی

دارالافتاء جامعۃ الرشید، کراچی

24/رجب الخیر/1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد مسعود الحسن صدیقی ولد احمد حسن صدیقی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب