021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
آرڈر لینے کے لیے متعلقہ افسران کو رشوت دینے کا حکم
80142خرید و فروخت اور دیگر معاملات میں پابندی لگانے کے مسائلمتفرّق مسائل

سوال

میں نے تقریبا ایک سال پہلے اپنے چھوٹے بھائی کامران اور ایک دوست کے ساتھ مل کر نئی کمرشل گاڑیوں کی ڈیلرشپس کا کاروبار شروع کیا تھا جو سیلز ،سروس (ورکشاپ) وغیرہ پر مشتمل ہے۔ ٹرکوں کی زیادہ ترسیل لیزنگ کے ذریعے ہوتی ہے, اسلامی نکتہٴ نظر سے ہمیں مندرجہ ذیل مسائل کا سامنا ہے :

1۔۱.بنک افسران جب بھی کسی کسٹمر کو  ٹرک لیز کرنے کی منظوری دیتے ہیں تو ان افسران کی صوابدید پر ہوتا ہے کہ اس شہر میں واقع تین چار ڈیلر شپس میں سے کسی ایک سے گاڑی خرید كروا دیں۔اس کمپٹيشن(Competition) سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ کسی ایک ڈیلرشپ سے 2 ہزار سے 3 ہزار روپے بطور   Incentive (رشوت)  لیکر اس کو آرڈر دیکر اس کی سیل کروا دیتے ہیں ۔

2۔اسی طرح جن ٹرانسپورٹرز کے بڑے .Fleet ہیں یعنی 100 یا 200 ٹرک وہ ہمارے ورکشاپ سے ان کی  Maintenance   کرواتے ہیں ۔ ان کا  Maintenance  Manager ہم سے بل کا10% سے 20%  تک Incentive(رشوت)  لیتا ہے یعنی اگر بل 50 ہزار روپے بنا تو منیجر ہم سے 5 سے 10 ہزار تک بطور Incentive لے گا، ورنہ کسی اور ورکشاپ سے کام کروا لے گا۔

4.اگر ہم مندرجہ بالا (3.۱)اور( 3.۲) نہیں دیں گے تو ہمارا تقریبا 75%  بزنس کم ہو جائے گا اور ہم سروائیو(Survive) نہیں کر سکیں گے ۔

5. یہ رقم ہم کسی اور کا حق مارنے کے لیے نہیں دیتے، بلکہ متعلقہ مینجروں کی خوشنودی اور  کارپوریشن کے لئے دینے پر مجبور ہیں، تا کہ ہمیں  بزنس  ملتا رہے۔نہ ہی اس کے عوض ہم یہ رقم کوالٹی یا ناپ تول پر کمپرومائز کرنے کے لئے دیتے ہیں ۔

7. ہمارا اصل مسئلہ نمبر تین کی دونوں شقیں ہیں ۔شرعی نقطہ نگاہ سے یہ درست ہیں یا نہیں ؟ اگر نہیں تو اس کا متبادل کیا ہو سکتا ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

بطور تمہید جاننا چاہیے کہ رشوت دینے اور لینے کے بارے میں احادیثِ مبارکہ میں سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں، ایک حدیث میں آیا ہے کہ رشوت دینے والے اور لینے والے دونوں پر اللہ کی لعنت ہو۔ لہذا بغیرکسی معتبر وجہ کے رشوت دینے کی اجازت نہیں ہے۔ البتہ دو صورتوں میں فقہائے کرام رحمہم اللہ نے رشوت دینے کی گنجائش دی ہے:

الف: دفعِ مضرت کے لیے، یعنی رشوت نہ دینے کی صورت میں آدمی کو نقصان کا خطرہ ہو، جیسے حکومت کے ہسپتال میں ڈاکٹر رشوت لیے بغیر علاج نہ کرے تو مجبوری کے پیشِ نظر علاج کروانے کے لیے بقدرِ ضرورت رشوت دینے کی گنجائش ہے۔

ب: اپنا جائز حق وصول کرنے کے لیے رشوت دینے کی گنجائش ہے، جیسے کوئی شخص ملازمت کے حصول کے لیے دیے گئے امتحان میں میرٹ پر پورا اترے، مگر حکومتی افسران اس کو رشوت دیے بغیر ملازمت نہ دیں تو ایسے شخص کے لیے اپنا جائز حق وصول کرنے کے لیے رشوت دینے کی گنجائش ہے۔

یہ واضح رہے کہ ان دونوں صورتوں میں لینے والے کے لیے رشوت لینا ہرگز جائز نہیں، بلکہ اس کے لیے بدستور رشوت لینا حرام اور گناہ کبیرہ ہے۔  

اس تمہید کے بعد سوال کا جواب یہ ہے کہ سوال میں ذکر کی گئی دونوں صورتیں مذکورہ بالا اصول کے تحت داخل نہیں ہو رہیں، کیونکہ یہاں ٹرکوں کی ترسیل اور مرمت (Maintenance) کرنا صرف آپ کا حق نہیں، بلکہ دیگر لوگ بھی اس حق میں شریک ہیں، البتہ یہاں چونکہ سب ڈیلرز رشوت دینے میں مبتلا ہیں اور اجتماعی طور پر ایک گناہ کے مرتکب ہیں، اس ماحول کو اگرچہ ایک ڈیلر انفرادی کوشش سے ختم نہیں کر سکتا، مگر اس کے خلاف کوشش کرنا لازمی ہے اور جب تک یہ ماحول ختم نہ ہو اس وقت تک ضرورت کے پیشِ نظر اپنا کاروباری حق وصول کرنے کے لیے بقدرِ ضرورت رشوت دینے کی گنجائش ہے، البتہ اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ سے توبہ واستغفار کرنا ضروری ہے۔ 

حوالہ جات
سنن ابن ماجه ت الأرنؤوط (3/ 411) دار الرسالة العالمية:
عن عبد الله بن عمرو، قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: "لعنة الله على الراشي والمرتشي"
فتح القدير للكمال ابن الهمام (7/ 254) دار الفكر، بيروت:
الرشوة أربعة أقسام: منها ما هو حرام على الآخذ والمعطي وهو الرشوة على تقليد القضاء والإمارة لا يصير قاضيا. الثاني ارتشاء القاضي ليحكم وهو كذلك حرام من الجانبين ثم لا ينفذ قضاؤه في تلك الواقعة التي ارتشى فيها سواء كان بحق أو بباطل. أما في الحق فلأنه واجب عليه فلا يحل أخذ المال عليه. وأما في الباطل فأظهر.
وحكي في الفصول في نفاذ قضاء القاضي فيما ارتشى فيه ثلاثة أقوال: لا ينفذ فيما ارتشى فيه، وينفذ فيما سواه. وهو اختيار شمس الأئمة، لا ينفذ فيهما، ينفذ فيهما، وهو ما ذكر البزدوي، وهو حسن لأن حاصل أمر الرشوة فيما إذا قضى بحق أجابها فسقه وقد فرض أن الفسق لا يوجب العزل فولايته قائمة وقضاؤه بحق فلم لا ينفذ، وخصوص هذا الفسق غير مؤثر، وغاية ما وجه به أنه إذا ارتشى عامل لنفسه أو ولده يعني والقضاء عمل الله تعالى وارتشاء القاضي أو ولده أو من لا تقبل شهادته أو بعض أعوانه سواء إذا كان بعلمه، ولا فرق بين أن يرتشي ثم يقضي أو يقضي ثم يرتشي، وفيه لو أخذ الرشوة ثم بعث إلى شافعي ليقضي لا ينفذ قضاء الثاني، لأن الأول عمل في هذا لنفسه حين أخذ الرشوة وإن كان كتب إلى الثاني ليسمع الخصومة وأخذ مثل أجر الكتاب صح المكتوب إليه، والذي قلد بواسطة الشفعاء كالذي قلد احتسابا في أنه ينفذ قضاؤه وإن كان لا يحل طلب الولاية بالشفعاء.
الثالث: أخذ المال ليسوي أمره عند السلطان دفعا للضرر أو جلبا للنفع وهو حرام على الآخر لا الدافع.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (5/ 362) دار الفكر-بيروت:
الرشوة أربعة أقسام: منها ما هو حرام على الآخذ والمعطي وهو الرشوة على تقليد القضاء والإمارة.
الثاني: ارتشاء القاضي ليحكم وهو كذلك ولو القضاء بحق؛ لأنه واجب عليه. الثالث: أخذ المال ليسوي أمره عند السلطان دفعا للضرر أو جلبا للنفع وهو حرام على الآخذ فقط وحيلة حلها أن يستأجره يوما إلى الليل أو يومين فتصير منافعه مملوكة ثم يستعمله في الذهاب إلى السلطان للأمر الفلاني، وفي الأقضية قسم الهدية وجعل هذا من أقسامها فقال: حلال من الجانبين كالإهداء للتودد وحرام منهما كالإهداء ليعينه على الظلم وحرام على الآخذ فقط، وهو أن يهدى ليكف عنه الظلم والحيلة أن يستأجره إلخ
قال: أي في الأقضية هذا إذا كان فيه شرط أما إذا كان بلا شرط لكن يعلم يقينا أنه إنما يهدي ليعينه عند السلطان فمشايخنا على أنه لا بأس به، ولو قضى حاجته بلا شرط ولا طمع فأهدى إليه بعد ذلك فهو حلال لا بأس به وما نقل عن ابن مسعود من كراهته فورع
الرابع: ما يدفع لدفع الخوف من المدفوع إليه على نفسه أو ماله حلال للدافع حرام على الآخذ؛ لأن دفع الضرر عن المسلم واجب ولا يجوز أخذ المال ليفعل الواجب.

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی

27/شوال المکرم 1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب