021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
عدت کے چند مسائل (عدت قمری حساب ہوگی یاشمسی ؟عدت وقت وفات سے حساب ہوگی یاتدفین سے؟
79856طلاق کے احکامعدت کا بیان

سوال

السلام علیکم! تین ماہ پہلے میرے شوہر  اللہ کو پیارے ہو گئے ہیں اور میں  عدت میں ہوں۔میں نے عدت کے متعلق چند باتیں پوچھنی تھیں جو کہ درج ذیل ہیں:

  1. عدت شمسی تاریخ کے حساب سے ہو گی یا چاند کی تاریخ کے حساب سے؟
  2. عدت کس دن سے شروع ہو گی،جس دن وفات ہوئی یا جس دن جنازہ ہوا؟
  3. ہمارے ہاں بعض عورتیں کہتی ہیں عدت ختم ہونے کے ایک دو دن بعد اٹھنا چاہیے،اسی دن نہیں۔کیا یہ بات درست ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

  1. عدت  قمری تاریخ کے حساب سے ہوگی۔لہذا اگرآپ کے شوہر  کی وفات  چاند کی پہلی تاریخ کو ہوئی ہے تو آپ کی عدّت چار ماہ دس  دن ہو گی(چاہے کل ایام جتنے بھی بنیں)،اور اگر وفات مہینے کے درمیان میں ہوئی ہے تو   عدت ایک سو تین(130)دن ہو گی۔
  2. جس دن شوہر کی وفات ہوئی ،اسی دن اور اسی وقت سے ہی عدت شروع ہوگی۔
  3. قمری تاریخ کے حساب سے جس وقت عدت مکمل جائے تو ،اس کے بعدمزید کچھ وقت بیٹھنا شرعاً ضروری نہیں۔
حوالہ جات
قال العلامۃ ابن عابدین رحمہ اللہ: إذا ‌اتفق ‌عدة ‌الطلاق والموت في غرة الشهر، اعتبرت الشهور بالأهلية وإن نقصت عن العدد.وإن اتفق في وسط الشهر،فعند الإمام يعتبر بالأيام، فتعتد في الطلاق بتسعين يوما، وفي الوفاة بمائة وثلاثين.(ردالمحتار:3/509)
قال جمع من االعلماء رحمھم اللہ:لو طلق امرأته وقت العصر من أول يوم من الشهر وهي ممن تعتد بالأشهر، تعتبر عدتها بالأهلة، ومضى بعض اليوم لا يوجب تكملة بالأيام بخلاف اليوم الثاني والثالث ،كذا في الفتاوى الصغرى.(الفتاوی الھندیۃ:1/527)
قال العلامۃعلي بن أبي بكر المرغيناني رحمہ اللہ:وابتداء ‌العدة في ‌الطلاق ‌عقيب ‌الطلاق وفي الوفاة عقيب الوفاة ،فإن لم تعلم بالطلاق أو الوفاة حتى مضت مدة ‌العدة فقد انقضت عدتها؛لأن سبب وجوب ‌
العدة الطلاق أو الوفاة ،فيعتبر ابتداؤها من وقت وجود السبب.(الھدایۃ:2/276)

محمد عمربن محمد الیاس

دارالافتاء جامعۃالرشید،کراچی

28رجب،1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد عمر بن محمد الیاس

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب