021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
دوا کے ذریعہ حیض روکنے کا حکم اور حالتِ حیض میں عمرہ کرنے کا طریقہ
79611پاکی کے مسائلحیض،نفاس اور استحاضہ کا بیان

سوال

پچھلے چھ ماہ سے استحاضہ چل رہا ہے، آج ڈاکٹر نے روکنے کی دو ماہ کے لیے دوائی دی ہے، جبکہ دس دن حیض اور 20 دن استحاضہ کے مطابق آج استحاضہ کا بارہواں دن ہے، اور حیض کے دن 23 فروری سے شروع ہوں گے۔ اور آج سے روکنے کی دوا شروع کردی ہے۔

مسئلہ یہ پوچھنا ہے کہ اب اگر خون رک جائے تو اس صورت میں 23 فروری سے حیض کا اطلاق ہوگا کہ نہیں؟ کیونکہ 27 فروری کو مکہ مکرمہ روانگی بھی ہے، اس صورت میں کیا وہ حیض کے ایام ہوں گے؟ اور اگر وہ حیض کے ایام ہیں تو اس صورت میں اگر عمرہ کا احرام نہ باندھا جائے اور قضا عمرہ کی نیت سے سفر کیا جائے، پھر حیض سے فارغ ہوکر نیت کی جائے میقات سے، تو کیا ایسا کرنا درست ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اگر دوا کے استعمال کی وجہ سے حیض کا خون آنا رُک جائے، تو آپ پاک شمار ہوں گی، لہٰذا 27 فروری کو عمرہ کا احرام باندھ کر مکہ مکرمہ جاسکتی ہیں، اور عمرہ بھی ادا کرسکتی ہیں۔ اور اگر دوا کے استعمال کے باوجود حیض کا خون آرہا ہو، تو عمرہ کے لیے جانے کا طریقہ یہ ہے کہ آپ غسل کرکے احرام کی نیت سے تلبیہ پڑھ لیں، اور یہ تلبیہ میقات سے پہلے پڑھنا ضروری ہے، اُس کے بعد مکہ مکرمہ میں پاک ہونے کا انتظار کریں، جب پاکی حاصل ہوجائے تو دوبارہ غسل کرکے عمرہ ادا کریں۔ ہاں! اگر حیض کا دورانیہ اتنا زیادہ ہوجائے کہ واپسی کی فلائٹ کا وقت آجائے، تو مجبوری کی وجہ سے حالتِ حیض  میں بھی عمرہ کرنے کی گنجائش ہے، تاہم حدودِ حرم میں ایک دَم دینا ضروری ہے۔ نیز استحاضہ کی حالت میں عمرہ کرنا جائز ہے، البتہ اس صورت میں عمرہ شروع کرنے سے پہلے وضو کرلیں۔

حوالہ جات
الدر المختار (1/284):
"وركنه [الحيض] بروز الدم من الرحم ... ووقت ثبوته بالبروز فيه ترك الصلاة."
رد المحتار (2/364):
"(قوله: وركنه بروز الدم من الرحم) أي ظهوره منه إلى خارج الفرج الداخل، فلو نزل إلى الفرج الداخل، فليس بحيض في ظاهر الرواية، وبه يفتى، قهستاني."
رد المحتار (2/443):
"(قوله: بخلاف الحائض)؛ لأن الشرع اعتبر دم الحيض كالخارج ... لما مر أنه لا يثبت الحيض إلا بالبروز لا بالإحساس به ... فلو أحست به، فوضعت الكرسف في الفرج الداخل ومنعته من الخروج، فهي طاهرة."
الفتاوى الهندية (1/222):
"وإذا أراد الإحرام، اغتسل أو توضأ، والغسل أفضل، إلا أن هذا الغسل للتنظيف، حتى تؤمر به الحائض، كذا في الهداية."
الفتاوى الهندية (1/38):
"يحرم عليهما [الحائض والنفساء] وعلى الجنب الدخول في المسجد، سواء كان للجلوس أو للعبور، هكذا في منية المصلي. وفي التهذيب: لا تدخل الحائض مسجدا لجماعة وفي الحجة، إلا إذا كان في المسجد ماء ... حرمة الطواف لهما بالبيت، وإن طافتا خارج المسجد، هكذا في الكفاية."
رد المحتار (8/316):
"[تنبيه] نقل بعض المحشين عن منسك ابن أمير حاج: لو هم الركب على القفول ولم تطهر فاستفتت هل تطوف أم لا؟ قالوا: يقال لها: لا يحل لك دخول المسجد، وإن دخلت وطفت، أثمت، وصح طوافك، وعليك ذبح بدنة، وهذه مسألة كثيرة الوقوع يتحير فيها النساء."

محمد مسعود الحسن صدیقی

دارالافتاء جامعۃ الرشید، کراچی

28/رجب الخیر/1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد مسعود الحسن صدیقی ولد احمد حسن صدیقی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب