021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
"اگر آپ نے مجھ سے یہ گاڑی لی” کے ساتھ تعلیق کے بعد خود گاڑی دینے کا حکم
79652طلاق کے احکامظہار )بیوی کو ماں یا بہن کے ساتھ تشبیہ دینے( کے احکام

سوال

ایک شخص کے پاس ایک گاڑی ہے، وہ گاڑی اس کی اور اس کی بہنوئی کی مشترکہ ہے۔ کچھ عرصہ قبل ان دونوں کے درمیان کسی بات پر لڑائی ہوگئی اور بات گاڑی تک پہنچی تو بہنوئی نے کہا کہ یہ گاڑی آپ کو نہیں دوں گا۔ بہنوئی نے کہا گاڑی میرے پاس ہے، اگر آپ نے یہ گاڑی مجھ سے لی تو میری بیوی مجھ پر ایسے ہوجائے جیسے میری وہ بہن جو آپ کے پاس ہے۔ ان دونوں کا تعلق افغانستان سے ہے، یہ بات انہوں نے پشتو میں کی تھی، پشتو کے الفاظ یہ تھے "کہ تا زما نہ دا گاڈے واخستو نو زما خزہ بہ پہ ما دا سی وی لکہ زما ھغہ خور چی تا تہ ناستہ دہ"۔

 اب وہ شخص کہہ رہا ہے کہ میرا بہنوئی مالی اعتبار سے کمزور ہے، میں گاڑی اس کو دینا چاہ رہا ہوں، اس بات سے نہ میری طلاق کی نیت تھی اور نہ ظہار کی، بلکہ غصہ میں اس طرح کہا۔ سوال یہ ہے کہ اس سے ظہار یا طلاق ثابت ہوگی یا نہیں؟ اس طرح کے الفاظ ہمارے عرف میں بہت بولے جاتے ہیں، غصہ میں قسم کے لیے بولے جاتے ہیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ اپنی بیوی کو ماں بہن کی طرح قرار دینے میں اگر ظہار کی نیت ہوگی تو ظہار کا حکم جاری ہوگا، طلاق کی نیت ہوگی تو طلاقِ بائن واقع ہوگی، اگر عزت وکرامت کی نیت ہوگی تو عزت وکرامت مراد ہوگی، اور اگر کوئی نیت نہیں ہوگی تو عزت وکرامت پر محمول ہوکر وہ الفاظ لغو قرار پائیں گے، بشرطیکہ عزت وکرامت کا معنی مراد لینا ممکن ہو اور اس سے کوئی مانع نہ ہو۔  

یہ تو اصولی بات ہے، لیکن ہماری معلومات کے مطابق پشتو زبان اور عرف میں لڑائی جھگڑے کی حالت میں اپنی بیوی کو ماں بہن سے تشبیہ دینے کا مطلب طلاق ہوتا ہے، اس لیے ایسی صورتِ حال میں اس سے طلاقِ بائن واقع ہوگی۔ افغانستان کے ایک عالمِ دین سے اس حوالے سے بات ہوئی تو ان کا بھی یہی کہنا تھا کہ ہمارے ہاں اس کو طلاق کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔  

تاہم چونکہ سوال میں ذکر کردہ تفصیل کے مطابق مذکورہ شخص نے لڑائی جھگڑے میں تعلیق بہنوئی کے فعل پر کی ہے کہ " اگر آپ نے یہ گاڑی مجھ سے لی تو میری بیوی مجھ پر ایسے ہوجائے جیسے میری وہ بہن جو آپ کے پاس ہے"، اپنے فعل یعنی گاڑی دینے پر  تعلیق نہیں کی؛ اس لیے اگر یہ شخص  خود اپنی رضامندی سے گاڑی بہنوئی کو دیتا ہے تو اس سے نہ طلاق واقع ہوگی، نہ ظہار ثابت ہوگا۔

حوالہ جات
الدر المختار (3/ 470-467):
( وذا ) أي الظهار ( كأنت علي كظهر أمي ) أو أمك، وكذا لو حذف علي، كما في النهر …. ( وإن نوى بأنت علي مثل أمي ) أو كأمي، وكذا لو حذف علي، خانية ( برا، أو ظهارا، أو طلاقا صحت نيته ) ووقع ما نواه؛ لأنه كناية ( وإلا ) ينو شيئا، أو حذف الكاف ( لغا ) وتعين الأدنى، أي البر، يعني الكرامة……( وبأنت علي حرام كأمي صح ما نواه من ظهار أو طلاق ) وتمنع إرادة الكرامة لزيادة لفظ التحريم، وإن لم ينو ثبت الأدنى، وهو الظهار في الأصح……الخ
رد المحتار (3/ 470):
قوله ( وإن نوى الخ ) بيان لكنايات الظهار، وأشار إلى أن صريحه لا بد فيه من ذكر العضو، بحر. قوله ( لأنه كناية ) أي من كنايات الظهار والطلاق، قال في البحر: وإذا نوى به الطلاق كان بائنا كلفظ الحرام، وإن نوى الإیلاء فهو إيلاء عند أبي يوسف، وظهار عند محمد، والصحيح أنه ظهار عند الكل؛ لأنه تحريم مؤكد بالتشبيه ا ه. 
ونظر فيه في الفتح بأنه إنما يتجه في "أنت علي حرام كأمي"، والكلام في مجرد "أنت كأمي" ا هـ أي بدون لفظ حرام.
قلت: وقد يجاب بأن الحرمة مرادة وإن لم تذكر صريحا. هذا، وقال الخير الرملي: وكذا لو نوى الحرمة المجردة ينبغي أن يكون ظهارا، وينبغي أن لا يصدق قضاءً في إرادة البر إذا كان في حال المشاجرة وذكر الطلاق اه…….  قوله ( لغا ) لأنه مجمل في حق التشبيه، فما لم يتبين مراد مخصوص لا يحكم بشيء، فتح..... قوله ( ثبت الأدنى ) لعدم إزالته ملك النكاح وإن طال، ط.  قوله ( في الأصح ) لأنه تحريم مؤكد بالتشبيه كما مر.  قال في الخانية: وفي رواية عن أبي حنيفة يكون إيلاء، والصحيح الأول.    

     عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

    1/شعبان المعظم /1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب