021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
والد کا بیٹے کے نکاح میں اپنا آدھا گھر بطورِ مہر لکھوانے کا حکم
79645نکاح کا بیانجہیز،مہر اور گھریلو سامان کا بیان

سوال

ایک والد نے خود اپنے بیٹے کے نکاح کے موقع پر لڑکی (بہو) کے نام مہر میں اپنا آدھا گھر لکھوایا۔ نکاح اور رخصتی ہوگئی، ان دونوں کا ایک بچہ بھی ہوا، لیکن لڑکی کو آدھے گھر کا قبضہ نہیں دیا گیا، بلکہ سب (خود والد ، یہ بیٹا جس کی بیوی کے مہر میں آدھا مکان لکھا تھا، ایک اور بیٹا اور دو بیٹیاں) اس گھر میں رہتے رہے۔ اس کے بعد لڑکے نے اپنی بیوی کو طلاق دیدی، جب لڑکے نے طلاق دی تو اس کے والد صاحب ابھی زندہ تھے۔ لڑکی والوں نے آدھا گھر مانگا تو  لڑکے والوں نے عدالت میں کیس شروع کیا، لیکن فیصلہ لڑکی کے حق میں آیا، جب تینوں دفعہ فیصلہ لڑکی کے حق میں ہوا تو لڑکے نے اپنی مطلقہ بیوی کو آدھے مکان کی قیمت دیدی۔ جب یہ عدالتی فیصلہ آیا تو اس وقت لڑکے کے والد صاحب کا انتقال ہوچکا تھا۔  

اب سوال یہ ہے کہ یہ آدھا گھر کس کا ہوگا؟ کیا اس میں اس لڑکے کے دوسرے بہن بھائیوں اور والدہ کا حصۂ میراث ہوگا یا نہیں؟ وہ لڑکا کہتا ہے کہ میں نے یہ گھر خریدا ہے، والد صاحب کے باقی ورثا یہ تو مانتے ہیں کہ لڑکی کو آدھے گھر کی قیمت آپ نے دی ہے، لیکن وہ کہتے ہیں کہ طلاق دے کر نقصان بھی آپ نے کیا ہے تو یہ آدھا گھر آپ کا کیسے ہوگیا؟ ان میں سے کس کی بات درست ہے؟

وضاحت: سائل سے نکاح نامہ اور مذکورہ عدالتی فیصلہ کی کاپی مانگی گئی تو اس نے بتایا کہ وہ دونوں مذکورہ لڑکے (سائل کے چچا) کے پاس ہیں، اس سے ہمارا رابطہ نہیں، نہ ہی وہ اس سلسلے میں تعاون کے لیے تیار ہے، اس لیے یہ دونوں چیزیں ہم فراہم نہیں کرسکتے۔ یہ آدھا گھر مہر میں لکھوانے کا پسِ منظر یہ تھا کہ مہر رقم کی شکل میں طے ہوا تھا، بعد میں لڑکی والوں کو لڑکے کے بارے میں کچھ باتیں پہنچیں تو لڑکی کے والد نے نکاح کی مجلس میں کہا کہ اگر آپ کا لڑکا طلاق دے گا تو آپ آدھا گھر لڑکی کو بطورِ مہر دیں گے، اگر یہ شرط منظور ہے تو نکاح ہوگا، ورنہ نہیں، اس پر لڑکے کا والد راضی ہوگیا اور انہوں نے اپنا آدھا مکان لکھوالیا۔ جس لڑکے کا نکاح ہورہا تھا (سائل کے چچا) اس کو اور اس کے بھائی (سائل کے والد) کو نکاح کے بعد اس بات کا پتا چلا کہ ہمارے والد نے آدھا مکان اس طرح بطورِ مہر لکھوایا ہے، یعنی والد نے لڑکے سے پوچھ کر یا اس کے کہنے پر اپنا آدھا مکان نہیں لکھوایا تھا۔ نکاح نامہ میں یہ آدھا گھر لکھواتے وقت والد صاحب صحت مند تھے، مرض الموت میں نہیں تھے، اور لڑکا (جس کا نکاح ہو رہا تھا ) بالغ تھا۔  

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورتِ مسئولہ میں جب اصل مہر رقم کی شکل میں طے ہوا تھا، بعد میں لڑکی والوں نے طلاق کی صورت میں آدھا گھر بھی لڑکی کو بطورِ مہر دینے کا مطالبہ کیا اور لڑکے کے والد نے ان کی یہ شرط لڑکے سے مشورہ اور اس کو بتائے بغیر مان لی اور اپنا آدھا گھر لکھوالیا تو یہ اس نے خود ضمان قبول کیا، یعنی ذمہ داری اپنے اوپر ڈال دی؛ لہٰذا اب اگر عدالت کے فیصلے کے بعد لڑکے نے لڑکی کو اس آدھے گھر کی قیمت اپنی جیب سے دی ہے تو یہ آدھا گھر صرف اسی لڑکے کا سمجھا جائے گا، باقی آدھا گھر تمام ورثا میں تقسیم ہوگا جس میں اس لڑکے کو بھی اپنا شرعی حصہ ملے گا۔    

حوالہ جات
البحر الرائق، ط:دار الکتب العلمیة (3/ 305):
 قوله ( وصح ضمان الولي المهر ) لأنه من أهل الالتزام، وقد أضافه إلى ما يقبله فيصح، والمراد به أنه في الصحة، أما في مرض الموت فلا؛ لأنه تبرع لوارثه في مرض موته، وكذلك كل دين ضمنه عن وارثه أو لوارثه، كما في الذخيرة….. وأطلق في الولي، فشمل ولي المرأة وولي الزوج الصغيرين والكبيرين. أما ولي الزوج الكبير فهو وكيل عنه كالأجنبي، وولايته عليه ولاية استحباب، وحكم ضمان مهره كحكم ضمان الأجنبي، فإن ضمن عنه بإذنه رجع، وإلا فلا، كما في فتح القدير……الخ
 وفي البزازية: إذا أعطى الأب أرضا في مهر امرأته، ثم مات الأب قبل قبض المرأة، لا تكون الأرض لها؛ لأنها هبة من الأب، لم تتم بالتسليم. فإن ضمن المهر، وأدى الأرض عنه، ثم مات قبل التسليم، كانت الأرض للمرأة؛ لأنه بيع، فلا يبطل بالموت.  
رد المحتار (3/ 143):
فرع: في الفيض:  ولو أعطى ضيعة بمهر امرأة ابنه، ولم تقبضها حتى مات الأب، فباعتها المرأة، لم يصح، إلا إذا ضمن الأب المهر، ثم أعطى الضيعة به، فحينئذ لا حاجة إلى القبض.  
تقریرات الرافعي (3/198):
(قوله فرع: في الفيض:  ولو أعطى ضيعة بمهرالخ) ذکر هذا الفرع في البزازیة، ونقله في البحر عنها، وعبارتها: إذا أعطى الأب أرضاً لمهر امرأة ابنه، ولم تقبض المرأة حتى مات الأب، لاتملك القبض، وإن کان ضمن المهر والمسألة بحالها، ملکت القبض بعد الموت؛ لأن الهبة لاتتم بلاقبض، وفيما إذا ضمن بیع، فلا يبطل بالموت. اه.
الفتاوى البزازية علی هامش الهندیة(4/ 123):
 إذا أعطى الأب أرضاً لمهر امرأة ابنه، ولم تقبض المرأة حتى مات الأب، لا تملك القبض، وإن كان ضمن المهر والمسألة بحالها، ملكت القبض بعد الموت؛ لأن الهبة لا تتم بلا قبض، وفيما إذا ضمن بقي، فلا يبطل بالموت.

     عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

     1/شعبان المعظم/1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب