021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بیٹیوں کی موجودگی بہنوں کا کتنا حصہ ہو گا؟
80198میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

ميرےدو ماموؤں کا انتقال ہوا، جن میں سے بڑے ماموں کی دو بیٹیاں اور چھوٹے کی چار بیٹیاں تھیں، مرحومین کی تین بہنیں اور تین چچازاد بھائی بھی حیات ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان کی وراثت  میں سے ان کی بیٹیوں اور بہنوں اور چچازاد بھائیوں کو کتنا حصہ ملے گا؟ نیز وفات کے وقت دونوں کی بیویاں بھی حیات تھیں۔

وضاحت: سائل نے فون پر بتایا کہ بڑے ماموں کا نام غلام سرور تھا، جن کا انتقال 2021ء میں اور چھوٹے ماموں کا نام غلام عباس تھا، اس کا انتقال 2023ء میں ہوا۔ لہذا بڑے ماموں کے انتقال کے وقت دو بیٹیوں اور تین بہنوں کے ساتھ ان کا چھوٹا بھائی بھی حیات تھا۔ جبکہ چھوٹے ماموں کے انتقال کے وقت اس کی چار بیٹیاں، تین بہنیں اور تین چچا زاد بھائی حیات تھے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سوال میں مذکور آپ کے دونوں ماموؤں کا ترکہ  ان کے ورثاء کے درمیان عليحده عليحده تقسيم ہو گا، جس کی تفصیل درج ذیل ہے:

  1. آپ کے بڑے ماموں غلام سرورنےبوقت ِانتقال اپنی ملکیت میں جو کچھ منقولہ وغیر منقولہ مال،جائیداد،سونا، چاندی، نقدی اور ہر قسم کا چھوٹا بڑا جوساز وسامان چھوڑا ہےاوران کا  وہ قرض جو کسی کے ذمہ  واجب ہو، يہ  سب ان کا ترکہ ہے۔اس میں سے ان کے کفن دفن کے متوسط اخراجات نکالنے،ان کے ذمہ واجب الاداء قرض ادا کرنے اور کل ترکہ کے ایک تہائی کی حد تک ان کی جائز  وصیت پر عمل کرنے کے بعد جو ترکہ باقی بچے، اس میں سے دو تہائی ترکہ مرحوم کی بیٹیوں کو ، آٹھواں حصہ مرحوم کی بیوی کو اور بقیہ ترکہ مرحوم کے بھائی اور بہنوں میں اس طرح تقسیم ہو گا کہ بھائی کو بہن کی بنسبت دوگنا دیا جائے گا، ترکہ کی تقسیم کا طریقہ یہ ہے کہ ترکہ سے متعلق مذکورہ بالا تین حقوق ادا کرنے کے بعد جو ترکہ باقی بچے اس کو ایک سو بیس (120) حصوں میں برابر تقسيم كر كے  ہر بیٹی کوچالیس حصے (40) حصے ، مرحوم کی بیوی کوپندرہ حصے (15) مرحوم کے بھائی  کو دس (10)حصے اور ہر بہن کوپانچ(5)حصہ دیے جائیں گے، تقسیم ِ میراث کا نقشہ ملاحظہ فرمائیں:

 

نمبر شمار

ورثاء

عددی حصہ

فیصدی حصہ

1

بیٹی

40

33.333%

2

بیٹی

40

33.333%

3

بیوی

15

12.5%

4

بھائی

10

8.333%

5

بہن

5

4.166%

6

بہن

5

4.166%

7

بہن

5

4.166%

  1. اس کے بعد جب آپ کے چھوٹے ماموں غلام عباس کا انتقال ہوا تو انہوں نے بوقت ِانتقال اپنی ملکیت میں جو کچھ منقولہ وغیر منقولہ مال،جائیداد،سونا، چاندی، نقدی اور ہر قسم کا چھوٹا بڑا جوساز وسامان چھوڑا ہےاوران کا  وہ قرض جو کسی کے ذمہ  واجب الاداء  ہو، يہ  سب ان کا ترکہ ہے۔اس میں سے ان کے کفن دفن کے متوسط اخراجات نکالنے،ان کے ذمہ واجب الاداء قرض ادا کرنے اور کل ترکہ کے ایک تہائی کی حد تک ان کی جائز وصیت پر عمل کرنے کے بعد جو ترکہ باقی بچے اس میں سے دو تہائی حصہ مرحوم کی بیٹیوں کو، آٹھواں حصہ مرحوم کی بیوی کو اور بقیہ ترکہ مرحوم کی بہنوں کو ملے گا، ترکہ کی تقسیم کا طریقہ یہ ہے کہ ترکہ سے متعلق مذکورہ بالا تینوں حقوق ادا کرنے کے بعد جو ترکہ باقی اس کو بہتر (72) حصوں میں برابر تقسيم كر كے مرحوم کی بیوی کو نو(9)حصے، ہربیٹی کو بارہ (12) حصے اور ہر بہن کو پانچ (5) حصے دیےجائیں گے، تقسیم ِ میراث کا نقشہ ملاحظہ فرمائیں:

نمبر شمار

ورثاء

عددی حصہ

فیصدی حصہ

1

بیوی

9

12.5%

2

بیٹی

12

33.333%

3

بیٹی

12

33.333%

4

بیٹی

12

33.333%

5

بیٹی

12

33.333%

5

بہن

5

6.944%

6

بہن

5

6.944%

7

بہن

5

6.944%

واضح رہے کہ مرحومین کے چچا زاد بھائی ان کی وراثت میں سے کسی حصہ کے حق دار نہیں ہوں گے، کیونکہ بیٹیوں کی موجودگی میں بہن عصبہ بنتی ہے اور عصبات میں شریعت کا اصول یہ ہے کہ قریبی عصبہ کی موجودگی میں بعیدی یعنی دور والا عصبہ رشتہ دار محروم ہوتا ہے اور بہنیں چونکہ مرحوم کے باپ کی اولاد (جزء أبيه)ہونے کی وجہ سے قریبی عصبہ ہیں، جبکہ چچازاد بھائی مرحوم کے بھائی کی اولاد(جزء ٲخیہ) ہونے کی وجہ سے بعیدی عصبہ ہیں،  اس لیے  بہنوں کی موجودگی میں چچا زاد بھائی مرحوم کی وراثت میں سے کسی حصہ کے حق دار نہیں ہوں گے۔

حوالہ جات
السراجي في الميراث: (ص:39) مكتبة البشرى، كراتشي:
وأما العصبة مع غيره فكل أنثى تصير عصبة مع أنثى أخرى، كالأخت مع البنت.
السراجی فی المیراث:(ص:19)، مکتبۃ البشری:  
وأما لبنات الصلب فأحوال ثلاث: النصف للواحدۃ، والثلثان للإثنین فصاعدا، ومع الابن للذکر مثل حظ الأنثیین وھو یعصبھن.

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی

یکم ذوالقعدة 1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب