79630 | میراث کے مسائل | میراث کے متفرق مسائل |
سوال
سوال:السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ !گزارش ہےکہ میری والدہ کاانتقال ہوگیاہے،وہ اپنی وراثت میں ایک عدددکان اورتقریبا تین لاکھ کیش اورسونا وراثت میں چھوڑکرگئی ہیں،ہم تین بہن اورتین بھائی ہیں ،ہمارےوالدکابھی انتقال ہوگیاہے،اوروالد کی وراثت شریعت کےحساب سےتقسیم ہوچکی ہے،اب ہمیں والدہ کی وراثت تقسیم کرنی ہے،اس میں کچھ مسئلہ درپیش ہے،وہ یہ کہ :
میری والدہ آئی سی یو میں ایڈمٹ تھیں،انتقال سےایک دن پہلےانہوں نےمیری ایک بہن کو کہاکہ گھرمیں میری الماری سےایک کالابیگ لےجاؤ،اس بات کاکوئی گواہ نہیں ہے،ان کےانتقال کےبعدہم تین بہن اور تین بھائی کی موجودگی میں الماری کھولی توایک بیگ نکلا،جس میں سونااورکچھ نقدرقم تھی)،اب شریعت کےحساب سے(سونااوریہ رقم )کیامیری بہن کی ہوگئی ؟شریعت کےحساب سےاس کا کیاحکم ہوگا؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
مذکورہ سونااوررقم میراث شمارہوگی،بہن کاذاتی نہیں ہوگا،کیونکہ ہبہ کےمکمل ہونےکےلیےقبضہ ضروری ہے،اگرچہ والدہ کی طرف سےزندگی میں ہبہ کردیاگیاتھا،لیکن اس پربیٹی نےان کی زندگی میں قبضہ نہیں کیا،لہذایہ سونااوررقم بیٹی کاذاتی نہیں ہوگا،بلکہ میراث شمار ہوگا۔
ہاں اگردیگربہن بھائی اس پرراضی ہوں کہ چونکہ والدہ نےاپنی زندگی میں کہہ دیاتھا،لہذایہ سونااوررقم بہن ہی کودیدیتےہیں توتمام ورثہ کی رضامندی سےاس طرح بھی کیا جاسکتاہے۔
حوالہ جات
" شرح المجلۃ" 1/473
:یملک الموھوب لہ الموھوب بالقبض ،فالقبض شرط لثبوت الملک ۔
"شرح المجلۃ"1 /462:
وتتم(الھبۃ)بالقبض الکامل لأنہامن التبرعات والتبرع لایتم الابالقبض الکامل ۔
محمدبن عبدالرحیم
دارالافتاءجامعۃ الرشیدکراچی
03/شعبان 1444ھج
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمّد بن حضرت استاذ صاحب | مفتیان | آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب |