021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
تنبیہ کے لیے بیوی کو طلاق دینا
79668طلاق کے احکامطلاق سے رجو ع کا بیان

سوال

السلام علیکم!کیا کہتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک شوہر جس کا اپنی بیوی سے کچھ عرصے سے کسی موضوع پر بحث اور جھگڑا چل رہا تھا ،اس دوران شوہر نے اپنی بیوی کو تنبیہ کرنے کے لیے غصے میں کہا"تم بس نہیں کرتی تو ٹھیک ہے ،آج سے تمہیں طلاق اور اگر پھر بھی باز نہ آئی تو دوسری اور تیسری طلاق بھی دے دوں گا"۔یہ سن کر بیوی رونے لگی ،نہ مسئلہ حل ہوا نہ دوبارہ اس موضوع پر بات ہوئی۔اس صورت میں کیا طلاق واقع ہوگئی؟ اگر ہوئی تو شریعت کے مطابق ازدواجی زندگی اس بیوی کے ساتھ دوبارہ بحال کرنے کے لیے کیا کرنا ہوگا؟وضاحت سے جواب دیجیے۔جزاکم اللہ۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورتِ مسئولہ میں شوہر کے اس جملے" تم بس نہیں کرتی تو ٹھیک ہے ،آج سے تمہیں طلاق " سے اس کی بیوی   پر ایک طلاق رجعی واقع ہو گئی ہے جبکہ دوسری اور تیسری طلاق واقع نہیں ہوئیں ،لہذا عدت گزرنے سے پہلے پہلے شوہر کو رجوع کرنے کا اختیار ہے۔ رجوع کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ عدت ختم ہونے سے پہلے  شوہر کم از کم دو عاقل،بالغ اور دیندار مسلمانوں کے سامنے یہ کہہ  دے کہ :"جو طلاق میں نے اپنی بیوی کو دی تھی،میں نے اس سے رجوع کر لیا ہے"۔اگرگواہوں کے بغیر تنہائی میں زبان سے رجوع کر لیا یا بیوی کےساتھ بوس و کنار  کر لیا تو اس سے بھی رجوع ہو جاتا ہے۔اس کے بعد دونوں میاں بیوی ہوں گے اور آئیندہ شوہر کو صرف دو طلاقوں کا اختیار ہو گا۔

حوالہ جات
قال العلامۃ الحصکفی رحمہ اللہ:وفي أنت الطلاق أو طلاق أو أنت طالق الطلاق أو أنت طالق طلاقا ،يقع ‌واحدة ‌رجعية إن ‌لم ينو شيئا.(الدرالمختار:3/251)
قال العلامۃ علي بن أبي بكرالمرغيناني رحمہ اللہ:وإذا طلق الرجل امرأته تطليقة رجعية أو تطليقتين فله أن يراجعها في عدتها رضيت بذلك أو لم ترض.(الهداية:  2/    126)
قال جمع من العلماء رحمھم اللہ: الرجعة إبقاء النكاح على ما كان ما دامت في العدة ،كذا في التبيين .وهي على ضربين: سني وبدعي ،فالسني:أن يراجعها بالقول ويشهد على رجعتها شاهدين ويعلمها بذلك ،فإذا راجعها بالقول نحو أن يقول لها: راجعتك أو راجعت امرأتي ولم يشهد على ذلك أو أشهد ولم يعلمها بذلك فهو بدعي مخالف للسنة والرجعة صحيحة .وإن راجعها بالفعل مثل أن يطأها أو يقبلها بشهوة أو ينظر إلى فرجها بشهوة ،فإنه يصير مراجعا عندنا إلا أنه يكره له ذلك ،ويستحب أن يراجعها بعد ذلك بالإشهاد، كذا في الجوهرة النيرة... وكما تثبت الرجعة بالقول ،تثبت بالفعل وهو الوطء واللمس عن شهوة ،كذا في النهاية
وكذا التقبيل عن شهوة على الفم بالإجماع (الفتاوی الھندیۃ:1/468)

محمد عمر بن محمدالیاس

دارالافتاء جامعۃالرشید،کراچی

6شعبان،1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد عمر بن محمد الیاس

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب