021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
گرافک ڈیزائننگ میں تصاویر اور جاندار کے علامتی خاکے بنانے کا حکم
79644جائز و ناجائزامور کا بیانکھیل،گانے اور تصویر کےاحکام

سوال

میں گرافک ڈیزائنر ہوں ۔ جب ہم کاسمیٹکس کاروبار کے لیے "لوگو" بناتے ہیں تو لڑکی کا فیس سٹرکچر (چہرہ) بناتے ہیں جس میں کبھی آنکھیں ہوتی ہیں کبھی نہیں ہوتیں، یا کبھی صرف بال ہوتے ہیں۔ اسی طرح حجاب ڈے ہوتا ہے، اس میں حجاب چہرے کے ارد گرد ہوتا ہے، چہرے پر کچھ نہیں ہوتا، کبھی اس طرح کی تصویر ہوتی ہے کہ چہرے کے سٹرکچر پر صرف ہونٹ کی شکل ہوتی ہے ۔اسی طرح لپ سٹک کمپنی کے "لوگو" میں صرف ہونٹ ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ پروفائل پکچر کے طور پر یا پریزنٹیشن میں مرد عورت کو الگ الگ ظاہر کرنے کے لیے صرف ہیڈ یعنی سر بناتے ہیں۔ آپ نے پبلک واش رومز کے دروازوں پر دیکھا ہوگا عورت والے واش رومز کا نشان الگ ہوتا ہے، جبکہ مردوں والے واش رومز پر مرد بنا ہوتا ہے۔ اسی طرح black history month میں عورت کا چہرہ بنا ہوتا ہے لیکن کالے رنگ میں، اس میں بھی یا صرف آنکھیں ہوتی ہیں یا صرف ہونٹ۔ عورت کی تعلیم یا woman empowerment کے لیے "لوگو" بناتے ہیں جس میں اس طرح کی شکل بناتے ہیں جس طرح عورتوں کے کپڑوں کی دکان میں پلاسٹک کا مجسمہ ہوتا ہے جس میں آنکھ وغیرہ نہیں ہوتیں، لیکن مرد اور عورت کے پلاسٹک مجسمے میں فرق ہوتا ہے، عورت کے مجسمے میں کبھی بال اضافی ہوتے ہیں، کبھی ان کے سینہ کا حصہ ابھرا ہوا ہوتا ہے، اسی طرح جب ہم ڈیزائن بناتے ہیں تو چہرہ نہیں ہوتا ،لیکن آپ کو لگتا ہے، visual representation ایسی ہوتی ہے کہ وہ عورت کے بارے میں بتاتی ہے۔ اسی طرح باڈی بلڈر کلب کے لوگو میں مرد کا سٹرکچر ہوتا ہے۔ (نمونہ منسلک ہے)

سوال یہ ہے کہ ان چیزوں کے بارے میں بنیادی قانون کیا ہے؟ ان میں کونسی شکل جائز ہوگی اور کونسی ناجائز؟ کس چیز کا بیچنا اپنی دکان سے ٹھیک ہوگا؟ یہ تصویر یا کارٹون کی طرح واضح بھی نہیں ہوتی، لیکن universal symbol کے طور پر لوگ اس کو سمجھتے ہیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ:-

(الف)۔۔۔ کسی بھی جان دار، انسان ہو یا حیوان، کی تصویر بنانا شرعا جائز نہیں۔ ڈیجیٹل عکس شرعا تصویر کی تعریف میں داخل ہے یا نہیں؟ اس میں علمائے کرام کی آراء مختلف ہیں، لیکن ڈیجیٹل عکس کا پرنٹ نکالنے کے ناجائز ہونے پر اتفاق ہے، البتہ ضرورت کے مواقع اس حکم سے مستثنیٰ ہیں، مثلا شناختی کارڈ اور پاسپورٹ وغیرہ، ان میں گنجائش ہے۔ اشیاء اور مصنوعات کے ڈبوں اور پیکنگ پر جاندار کی تصاویر پرنٹ کرنا شرعا ضرورت اور حاجت میں داخل نہیں۔  

(ب)۔۔۔ جاندار کا ایسا ڈیجیٹل عکس بنانا بھی بالاتفاق ناجائز ہے جس میں کوئی اور ناجائز امر پایا جارہا ہو، مثلا اس میں جسم کا کوئی ایسا حصہ کھلا بنایا جائے جو شرعا ستر میں داخل ہو اور اسے چھپانا واجب ہو، یا بے حیائی پر مشتمل اور اس کی طرف بلانے والا ہو۔  

(ج)۔۔۔ تصویر کا اصل دار ومدار سر، چہرہ اور اس کے خد وخال پر ہے۔ لہٰذا اگر کسی تصویر سے سر بمع چہرہ مکمل کاٹ لیا جائے، یا اس کا چہرہ مکمل مٹادیا جائے تو وہ شرعا تصویر کے حکم سے نکل جائے گی۔ صرف آنکھیں، یا پلکیں یا ہونٹ مٹانے سے تصویر کا حکم ختم نہیں ہوگا۔     

(د)۔۔۔ جاندار کی شکل پر بنائے جانے والے وہ خاکے اور کارٹون بھی جاندار کی تصویر کے حکم میں ہیں جن میں سر اور چہرہ کے اعضاء موجود ہوں؛ اگرچہ وہ symbol کے طور پر استعمال ہو۔

اس تمہید کے بعد منسلکہ نمونہ میں درج تصاویر اور خاکوں کی صورتیں (مع تصویر نمبر) اور ان کے  احکام درجِ ذیل ہیں۔

(1)۔۔۔ ان میں سے بعض میں انسان کا پورا جسم بنا ہوا ہے، بعض میں صرف سر اور چہرہ ہے، اور چہرے کے اعضا واضح ہیں۔ یہ دونوں قسم کی تصاویر شرعاً معتبر ضرورت وحاجت کے بغیر کاغذ وغیرہ پر بنانا یا ایسی ڈیجیٹل تصویر کو پرنٹ کرنا بالاتفاق ناجائز ہے۔

 اگر کوئی شخص صرف اس طرح ڈیجیٹل عکس بناتا ہے، پرنٹ نہیں کرتا  تو علمائے کرام کی ایک جماعت کے نزدیک یہ بھی ناجائز ہے، جبکہ دوسری جماعت کے نزدیک اگر اس میں کوئی اور ناجائز امر نہ ہو تو اس کی گنجائش ہے۔

لیکن اگر اس میں کوئی دوسرا ناجائز امر پایا جا رہا ہو، جیساکہ اوپر "ب" کے تحت بیان ہوا، یا مثلا گرافک ڈیزائنر اس نیت کے ساتھ بنائے کہ اسے پرنٹ کیا جائے، یا اس بات کی تصریح کردے یا تصریح اور اس کی نیت تو نہ ہو، لیکن اسے ظنِ غالب کی حد تک علم ہو کہ بنوانے والا اس کو پرنٹ نکالنے کے لیے ہی بنوا رہا ہے تو اس صورت میں اس کو ڈیجیٹل شکل میں بنانا بھی بالاتفاق ناجائز ہوگا۔ لہٰذا منسلکہ نمونہ میں جاندار کی شکل پر بنائے گئے وہ علامتی خاکے symbols)) جن میں خاتون کے بال، گلا اور بازو وغیرہ کو کھلا دکھایا گیا ہے، ان کو اس خرابی کی وجہ سے ڈیجیٹل شکل میں بنانا بھی بالاتفاق ناجائز ہے۔ (تصاویر نمبر:1)

(2)۔۔۔ بعض تصاویر ایسی ہیں جن میں پورے انسانی جسم یا سر اور چہرے کا مکمل خاکہ ہے؛ لباس بھی چست بنایا گیا ہے جس سے جسمانی ساخت واضح ہوتی ہے، البتہ کالے رنگ میں بنایا گیا ہے۔ ان کا حکم بھی وہی ہے جو اوپر نمبر (1) میں بیان ہوا۔ صرف کالے رنگ کی وجہ سے حکم پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ (تصاویر نمبر:2)   

(3)۔۔۔ خواتین کے بعض خاکے ایسے ہیں جن کا سر نہیں بنایا گیا؛ لیکن دھڑ کے خاکے کو ناجائز اور نامکمل لباس کی تشہیر کے لیے نیم عریاں بنایا گیا ہے، بعض کے آستین صرف کہنیوں تک بنائے گئے ہیں، بعض میں شلوار کی جگہ مختصر لباس ہے جو گھٹنوں تک ہے، بعض میں گلے اور سینے کا ابتدائی حصہ کھلا بنایا گیا ہے۔ یہ اگرچہ شرعی اعتبار سے تصویر کے حکم میں داخل نہیں؛ لیکن مذکورہ بالا خرابیوں کی وجہ سے ان کا بنانا بھی بالاتفاق جائز نہیں، کسی کاغذ، کپڑے وغیرہ پر بنائی جائیں یا ڈیجیٹل شکل میں، جیساکہ اوپر شق "ب" کے تحت بیان ہوا۔  (تصاویر نمبر:3)

(4)۔۔۔ ایک، دو تصویریں ایسی بنائی گئی ہیں جن میں چہرے کا کوئی عضو نہیں بنایا گیا، صرف دائرے کے گرد نقاب بنایا گیا ہے جو خاتون کی علامت ہے۔ یہ شرعا تصویر کے حکم میں داخل نہیں، اس لیے اسے ڈیجیٹل شکل میں بنانا اور پرنٹ کرنا جائز ہے۔ (تصاویر نمبر:4)

(5)۔۔۔ دو تصاویر ایسی ہیں جن میں خاتون کے مکمل جسم کو مکمل لباس میں دکھایا گیا ہے، لیکن چہرے پر کوئی اعضاء نہیں ہیں؛ اس لیے یہ نہ تصویر کے حکم میں داخل ہیں، نہ ان میں کوئی اور خرابی ہے؛ اس لیے جائز مقصد کے لیے اس طرح عکس بنانے کی گنجائش ہے۔ اسی طرح مردوں کی دو تصویریں ایسی بنائی گئی ہیں جن میں چہرے کا کوئی عضو نہیں، یہ بنانا اور پرنٹ کرنا بھی جائز ہے۔  (تصاویر نمبر:5)

(6)۔۔۔ خواتین کی تین تصاویر میں سر، چہرہ اور گلا بنائے گئے ہیں، لیکن چہرے کو مکمل ہموار بنایا گیا ہے، ہونٹ اور ناک نہیں بنائے گئے، کان بعض میں ہیں، بعض میں نہیں، اور سر پر بال نہیں بنائے گئے، بلکہ بالوں کی علامتی شکل بنائی گئی ہے۔ یہ شرعا تصویر کے حکم میں داخل نہیں۔ (تصاویر نمبر:6)

(7)۔۔۔ دو تصاویر میں چہرہ بنایا گیا ہے، لیکن زیادہ واضح نہیں، اور سر نہیں بنایا گیا، بلکہ ہلکے سے فاصلے کے ساتھ بالوں کا علامتی نشان بنایا گیا۔ یہ دونوں قسم کی تصاویر زیادہ واضح نہیں، بلکہ موہوم اور تصویر کے سایہ کے زیادہ قریب ہیں، اس لیے یہ حرام تصویر کے حکم میں داخل نہیں، لیکن ان سے بھی اجتناب بہتر ہے۔ (تصاویر نمبر:7)

 (8)۔۔۔ ایک تصویر صرف انسانی دل کی بنائی گئی ہے اور اس میں صلیب کے نشان کو نیچے سے پیوست کیا گیا ہے؛ یہ بھی اس طرح صلیب کے ساتھ بنانا جائز نہیں۔ (تصویر نمبر:8)

(9)۔۔۔ خواتین کے صرف ہونٹ، رخسار یا کوئی اور عضو کھلا بنانا اگرچہ تصویر کے حکم میں داخل نہیں؛ لیکن شریعت کی تعلیمات (ستر، حیاء اور عورت کی کرامت) کے خلاف ہے، اس لیے خواتین کے صرف ان اعضاء  کو بھی تشہیر اور مارکیٹنگ کے لیے استعمال کرنا اور بنانا جائز نہیں۔ 

(10)۔۔۔ مرد و خواتین کی نماز کی جگہ، کھانے کی جگہ یا  بیت الخلاؤں وغیرہ میں فرق اور پہچان کے لیے، یا تعلیم کے لیے اگر ایسے خاکے اور علامتی تصاویر بنائی جائیں جن میں چہرے کے اعضاء نہ ہوں یا انہیں مکمل مٹادیا جائے تو اس کی گنجائش ہے۔  

حوالہ جات
 صحيح البخاري (3/ 82):
حدثنا عبد الله بن عبد الوهاب حدثنا يزيد بن زريع أخبرنا عوف عن سعيد بن أبي الحسن قال كنت عند ابن عباس رضي الله عنهما إذ أتاه رجل فقال يا أبا عباس إني إنسان إنما معيشتي من صنعة يدي وإني أصنع هذه التصاوير فقال ابن عباس لا أحدثك إلا ما سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول، سمعته يقول: من صور صورة، فإن الله معذبه حتى ينفخ فيها الروح، وليس بنافخ فيها أبدا. فربا الرجل ربوة شديدة واصفر وجهه، فقال: ويحك! إن أبيت إلا أن تصنع، فعليك بهذا الشجر، كل شيء ليس فيه روح.
شرح معاني الآثار - الطحاوي (4/ 287):
عن أبي هريرة رضي الله تعالیٰ عنه قال : الصورة الرأس، فكل شيء ليس له رأس، فليس بصورة.
السنن الكبرى للبيهقي (7/ 270):
عن عكرمة عن ابن عباس رضى الله عنهما قال: الصورة الرأس، فإذا قطع الرأس، فليس بصورة.
مسند أحمد، ط الرسالة (16/ 152):
عن أبي هريرة رضي الله تعالیٰ عنه ، قال: جاء جبريل إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: أتيتك البارحة، فما منعني من الدخول عليك إلا كلب كان في البيت، وتمثال صورة في ستر كان على الباب، قال: فنظروا، فإذا جرو للحسن أو الحسين كان تحت نضد لهم ، فأمر بالكلب فأخرج، وأن يقطع رأس الصورة حتى تكون مثل الشجرة، ويجعل الستر منبذتين.
فتح الباري - ابن حجر (10/ 388):
ونقل الرافعي عن الجمهور أن الصورة إذا قطع رأسها، ارتفع المانع.
تکملة فتح الملهم (4/159-155):
ومن أجل هذه الأحادیث والآثار ذهب الفقهاء إلی تحریم التصویر واتخاذ الصور في البیوت، سواء کانت مجسمة لها ظل، أو کانت غیر مجسمة لیس لها ظل.
فیقول النووي رحمه الله تعالی تحت حدیث الباب: " قال أصحابنا وغيرهم من العلماء تصوير صورة الحيوان حرام شديد التحريم وهو من الكبائر؛ لأنه متوعد عليه بهذا الوعید الشدید المذکور فى الأحاديث وسواء صنعه بما يمتهن أو بغيره فصنعته حرام بكل حال؛ لأن فيه مضاهاة لخلق الله تعالیٰ…..... ولافرق فى هذا كله بين ماله ظل ومالاظل له هذا تلخيص مذهبنا فى المسألة وبمعناه قال جماهير العلماء من الصحابة والتابعين ومن بعدهم، وهو مذهب الثورى ومالك وأبى حنيفة وغيرهم".
وبمثله قال العیني في عمدة القاري (10/309)، وبه یتبین مذهب الشافعیة والحنفیة. وهو مذهب الحنابلة أیضًا………. فالحاصل أن المنع من اتخاذ الصور مجمع علیه فیما بین الأئمة الأربعة إذا کانت مجسدة. أما غیر المجسدة منها، فاتفق الأئمة الثلاثة علی حرمتها أیضا قولًا واحدًا، والمختار عند أکثر المالکیة کراهتها، لکن ذهب بعض المالکیة إلی جوازها.
بدائع الصنائع (1/ 115):
ولو صلى في بيت فيه تماثيل، فهذا على وجهين: إما إن كانت التماثيل مقطوعة الرؤوس أو لم تكن مقطوعة الرؤوس. فإن كانت مقطوعة الرؤوس، فلا بأس بالصلاة فيه؛ لأنها بالقطع خرجت من أن تكون تماثيل والتحقت بالنقوش. والدليل عليه ما روي أن رسول الله أهدي إلیه ترس فيه تمثال طير فأصبحوا وقد محي وجهه، وروي أن جبريل عليه السلام استأذن رسول الله فأذن له فقال كيف أدخل وفي البيت قرام فيه تماثيل خيول ورجال فإما أن تقطع رؤوسها أو تتخذ وسائد فتوطأ، وإن لم تكن مقطوعة الرؤوس فتكره الصلاة فيه .
الدر المختار (1/ 648):
( و ) لا يكره ( لو كانت تحت قدميه ) أو محل جلوسه؛ لأنها مهانة ……... ( أو مقطوعة الرأس أو الوجه )……الخ
رد المحتار (1/ 650-648):
 قوله ( أو مقطوعة الرأس ) أي سواء كان من الأصل، أو كان لها رأس ومحي، وسواء كان القطع بخيط خيط على جميع الرأس حتى لم يبق له أثر، أو يطليه بمغرة، أو بنحته، أو بغسله؛ لأنها لا تعبد بدون الرأس عادة. وأما قطع الرأس عن الجسد بخيط مع بقاء الرأس على حاله فلا ينفي الكراهة؛ لأن من الطيور ما هو مطوق، فلا يتحقق القطع بذلك. وقيد بالرأس؛ لأنه لا اعتبار بإزالة الحاجبين أو العينين؛ لأنها تعبد بدونها، وكذا لا اعتبار بقطع اليدين أو الرجلين،  بحر .  …………….. الخ
تنبيه: هذا كله في اقتناء الصورة، وأما فعل التصوير فهو غير جائز مطلقا؛ لأنه مضاهاة لخلق الله تعالى، كما مر.
جواهر الفقه (7/258-246):
فقه البیوع (1/193):
وإن لم یکن محرکًا وداعیًا، بل موصلًا محضًا، وهو مع ذلك سبب قریب بحیث لایحتاج في إقامة المعصیة به إلی إحداث صنعة من الفاعل، کبیع السلاح من أهل الفتنة، وبیع الأمرد ممن یعصي به، وإجارة البیت ممن یبیع فیه الخمر أو یتخذها کنیسة أو بیت نار وأمثالها، فکله مکروه تحریما، بشرط أن یعلم به البائع والآجر، من دون تصریح به باللسان؛ فإنه إن لم یعلم کان معذورًا، وإن علم وصرح کان داخلًا في الإعانة المحرمة. وإن کان سببًا بعیدًا بحیث لایفضي إلی المعصیة علی حالتها الموجودة، بل یحتاج إلی إحداث صنعة فیه، کبیع الحدید من أهل الفتنة وأمثالها، فتکره تنزیهًا.

     عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

     4/شعبان المعظم/1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب