021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ورثاء معلوم نہ ہونے کی صورت میں ترکہ مسجد کے کیس کی پیروی میں لگانا
79709زکوة کابیانصدقات واجبہ و نافلہ کا بیان

سوال

ایک شخص سردار خان کاانتقال ہوگیا۔ سردار خان کے ورثا کے کچھ پتا یا معلومات نہیں ہیں۔ سردار خان کی کئی ماہ کی تنخواہ ایک شخص کے پاس جمع ہوتی رہی ہے۔ ہمارے محلے کی مسجد کچھ علاقائی تنازع کی وجہ سےتقریبا عرصہ 14 سال سے سیل ہے، جس کاکیس ہائی کورٹ میں چل رہاہے، اس مسجد کاکیس ہلِ محلہ باہمی چندے سے چلارہےہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا اس کیس میں سردار خان مرحوم کی متروکہ رقم لگائی جاسکتی ہےیانہیں؟ نیز اگر مسجد کے کیس میں یہ رقم لگانے کی اجازت نہیں تو پھراس رقم کو کہاں خرچ کرنا لازم ہوگا؟  

نوٹ: اگر سردار خان مرحوم کے ورثا کاعلم ہوتاتویہ رقم ان کوہی دی جاتی۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورتِ مسئولہ میں اصل حکم یہی ہے کہ سردار خان مرحوم کے ورثا کو ہر ممکن طریقے سے تلاش کیا جائے، اگر وہ مل جائیں تو یہ رقم ان کو دیدی جائے۔ لیکن اگر تلاش کے باوجود وہ نہ ملیں تو پھر یہ رقم ان کی طرف سے صدقہ کرنا ضروری ہے۔ پھر اس کے مصرف کےبارےمیں دورائیں ہیں:-

پہلی رائے یہ ہے کہ اس کو صرف صدقہ کرنا لازم ہے، تملیک یعنی کسی مستحقِ زکوۃ شخص کو مالک بنا کردینا ضروری نہیں۔ (امدادالفتاوی ٰجلد:2،صفحہ:573وفتاویٰ عثمانی جلد:3،صفحہ 130تا 140)

دوسری رائےیہ ہےکہ اس کا مصرف وہی ہے جو صدقاتِ واجبہ کا مصرف ہے، لہٰذا اس  کو صرف صدقہ کرنا کافی نہیں، بلکہ تملیک بھی ضروری ہے۔ (امداد المفتین، ص:383 تا 386)

دوسری رائے میں احتیاط ہے، لیکن دلائل کے اعتبار سے پہلی رائے زیادہ قوی اور راجح ہے۔ اس لیے اگر تلاش کے باوجود سردار خان مرحوم کے ورثا نہیں ملتے تو یہ رقم ان کی طرف سے بطورِ صدقہ مسجد کو دی جاسکتی ہے۔ پھر اگر مسجد کی انتظامیہ مسجد کے فنڈ سے اس رقم کو مسجد کے کیس کی پیروی میں خرچ کرنا مناسب سمجھے اور اس میں مسجد کی واقعی مصلحت بھی ہو تو ایسا کرنے کی گنجائش ہے۔      

حوالہ جات
الدر المختار (2/ 337):
ونظمها ابن الشحنة فقال بيوت المال أربعة…… ورابعها الضوائع مثل مالا  ٭  يكون له أناس وارثون………. ورابعها فمصرفه جهات تساوى النفع فيها المسلمون.
رد المحتار (2/ 338):
قوله (ورابعها فمصرفه جهات الخ) موافق لما نقله ابن الضياء في شرح الغزنوية عن البزدوي من أنه يصرف إلى المرضي والزمني واللقيط وعمارة القناطر والرباطات والثغور والمساجد وما أشبه ذلك، اه. ولكنه مخالف لما في الهداية و الزيلعي، أفاده الشرنبلالي. أي فإن الذي في الهداية وعامة الكتب أن الذي يصرف في مصالح المسلمين هو الثالث كما مر، وأما الرابع فمصرفه المشهور هو اللقيط الفقير والفقراء الذين لا أولياء لهم، فيعطي منه نفقتهم وأدويتهم وكفنهم وعقل جنايتهم كما في الزيلعي وغيره.
وحاصله أن مصرفه العاجزون الفقراء. فلو ذكر الناظم الرابع مكان الثالث ثم قال وثالثها حواه عاجزونا ورابعها فمصرفه الخ لوافق ما في عامة الكتب.
فقه البیوع (1/468):
وکذلك تتعین النقود المغصوبة والمکتسبة بطریق محرم، مثل الربا. ولذلك وجب ردها علی مالکها، فإن تعذر ردها إلی مالکها، وجب التصدق بها بقصد التخلص منها، وإیصال ثواب الصدقةإلی مالکها. وبما أنه صدقة نافلة عن مالکها، فیجوز صرفها إلی من له قرابة الزواج أو الولاد مع وجب علیه التصدق. وکذلك ینبغی أن لایشترط فیه التملیك، وقد ذکرت أدلة ذلك فی "فتاوی عثمانی".

     عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

    8/شعبان المعظم/1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب