021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بھنگ کی کاشت، تجارت اور آمدنی کا حکم
79733شراب کے احکامالکحل کے احکام

سوال

بھنگ کی کاشت کرنا شرعا جائز ہے یا نہیں؟ چاہے کاٹنے سے پہلے بیچا جائے یا کاٹ کر نشہ نکال کر بیچا جائے۔ اگر کسی علاقہ میں بھنگ کے نقصانات زیادہ اور فوائد کم ہوں تو اس کی کاشت کا کیا حکم ہوگا؟ اور اگر فوائد زیادہ اور نقصانات کم ہوں تو کیا حکم ہوگا؟ اگر بھنگ کی تجارت حرام ہے تو اس کی آمدنی کا کیا حکم ہوگا؟ بھنگ کی کاشت کرنے والے کی دعوت قبول کرنا، اس کے ہاں کھانا کھانا جائز ہے یا نہیں؟ اور اس سے ہدیہ لینا جائز ہے یا نہیں؟ کیا شرعی امور میں بھنگ کے نفع کی رقم استعمال کرنا جائز ہے یا نہیں؟ کیا مسجد کے امام کے لیے بھنگ کے پیسوں کی زکوۃ لینا جائز ہے یا نہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

بھنگ ان اشیاء میں سے ہیں جن کا استعمال فی نفسہ جائز اور ناجائز دونوں طرح ممکن ہے۔ اس کا جائز استعمال دوائیوں اور دیگر مصنوعات میں ہوتا ہے، جبکہ ناجائز استعمال نشہ کے لیے ہوتا ہے۔ لیکن اس کا ناجائز استعمال زیادہ اور غالب ہے، اسی وجہ سے اس کی کاشت پر قانونا پابندی ہے۔ اس لیے:-

  • بھنگ کی عمومی کاشت اور تجارت جائز نہیں، گناہ کا کام ہے، اس سے بچنا لازم ہے۔ تاہم چونکہ فی نفسہ اس کا جائز استعمال ممکن ہے، اس لیے اس کی آمدنی حرام نہیں ہوگی۔ آمدنی حرام نہ ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ یہ کام کرتا رہے، گناہ بہر حال ہوگا، اس لیے اگر کسی نے اس کی کاشت کی ہو تو اس پر توبہ اور آئندہ کے لیے اس سے باز رہنا اس پر لازم ہوگا۔
  • اگر کوئی شخص حکومت سے قانون کے مطابق اجازت لے کر جائز استعمال کے لیے اس کی کاشت اور تجارت کرے تو یہ شرعا جائز ہوگا، اس صورت میں آمدنی کا جائز ہونا واضح ہے۔

مذکورہ بالا دونوں صورتوں میں چونکہ بھنگ کی آمدنی بہر حال حرام نہیں، اس لیے بھنگ کی کاشت اور تجارت کرنے والی کی دعوت قبول کرنا اور اس سے ہدیہ لینا جائز ہے۔ اسی طرح بھنگ کی رقم خیر کے کاموں میں استعمال کرنا بھی جائز ہے۔ بھنگ کی رقم کی زکوۃ بھی ہر مستحقِ زکوۃ شخص کو لینا جائز ہے۔ اگر امامِ مسجد مستحقِ زکوۃ ہو تو اس کے لیے بھی اس کی زکوۃ کی رقم لینا جائز ہے، البتہ اگر وہ اسے خلافِ مصلحت سمجھتا ہو تو اجتناب زیادہ بہتر ہے۔

حوالہ جات
الدر المختار (6/ 454):
(وصح بيع غير الخمر) مما مر، ومفاده صحة بيع الحشيشة والأفيون.
 قلت: وقد سئل ابن نجيم عن بيع الحشيشة هل يجوز؟ فكتب لا يجوز، فيحمل على أن مراده بعدم الجواز عدم الحل. قاله المصنف.
رد المحتار (6/ 454):
قوله (وصح بيع غير الخمر) أي عنده خلافا لهما في البيع والضمان، لكن الفتوى على قوله في البيع……… ثم إن البيع وإن صح، لكنه يكره، كما في الغاية….. قوله (مما مر) أي من الأشربة السبعة. قوله ( ومفاده الخ ) أي مفاد التقييد بغير الخمر، ولا شك في ذلك؛ لأنهما دون الخمر وليسا فوق الأشربة المحرمة، فصحة بيعها يفيد صحة بيعها، فافهم. قوله ( عدم الحل ) أي لقيام المعصية بعينها.  وذكر ابن الشحنة أنه يؤدب بائعها، وسيأتي.
المجلة (ص: 20):
مادة 42: العبرة للغالب الشائع لا للنادر.

     عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

     9/ شعبان المعظم/1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب