021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بیٹے کا والد کی زندگی میں اپنے حصہ کا مطالبہ کرنا
79946تقسیم جائیداد کے مسائلمتفرّق مسائل

سوال

ایک شخص کی دو بیویاں ہیں،دونوں سے اولاد بھی ہے۔وہ شخص ابھی حیات ہے،اس شخص کے بچوں کو لگتا ہے کہ ان کے باپ کی دولت کی تقسیم میں مساوات نہیں پائی جاتی۔دونوں بیویوں کے بچوں کی پرورش،تعلیم اور شادی تک والد کروارہا ہے۔پہلی بیوی سے سبھی بچے پرورش وتعلیم کا مرحلہ پار کرچکے ہیں،جن میں سے تین شادی شدہ ہیں۔والد نے دوسری شادی کو دس برس چھپا کر رکھا اس کے بعد پہلی بیوی کے بچوں کو دوسری بیوی کا معلوم پڑا۔اب پہلی بیوی سے بچوں کو لگتا ہے کہ والد کے پاس جتنی بھی نقدی رقم ہے اس میں مساویانہ سلوک نہیں پایا جاتا۔

والد کی کمائی میں گزشتہ آٹھ سالوں میں بڑے بیٹے کی قانونی خدمات بھی شامل ہیں ،جیسے مختلف محکموں سے بل پاس کروانا،دستخط کروانااور کوئی معاملہ سرکاری طور پر اٹک جائے تو اسے کلئیر کروانا بڑے بیٹے کی وجہ سے ہوتا رہا کیونکہ بڑا بیٹا ایک اہم پوسٹ پر تعینات ہے۔

اس صورت حال میں پہلی بیوی کے بچے کیا والد سے پیسے لینے یا مانگنے کا حق رکھتے ہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

زندگی میں ہر شخص اپنی جائداد کا خود مالک ہوتا ہے اور اس میں اس کو مکمل تصرف کا اختیارحاصل ہوتا ہے،اس میں اولاد یا دیگر وارثوں کا کوئی حق نہیں ہوتااور نہ ہی ان کو مطالبہ کا حق حاصل ہوتا ہےکیونکہ اولاد اور وارثوں کا حق تو وفات کے بعد وابستہ ہوتا ہے۔

لہٰذا مذکورہ صورت میں پہلی بیوی کے بچوں کووالد کی زندگی میں جائداد کے مطالبہ کا حق حاصل نہیں ہے،البتہ والد صاحب کو چاہیے کہ وہ اپنی زندگی میں دونوں بیویوں کے بچوں کے ساتھ انصاف کا معاملہ کرے۔

حوالہ جات
رد المحتار" (4 / 444)
" ورد في الحديث أنه - صلى الله عليه وسلم - قال «سووا بين أولادكم في العطية ولو كنت مؤثرا أحدا لآثرت النساء على الرجال» رواه سعيد في سننه وفي صحيح مسلم من حديث النعمان بن بشير «اتقوا الله واعدلوا في أولادكم» فالعدل من حقوق الأولاد في العطايا والوقف عطية فيسوي بين الذكر والأنثى، لأنهم فسروا العدل في الأولاد بالتسوية في العطايا حال الحياة.
 وفي الخانية ولو وهب شيئا لأولاده في الصحة، وأراد تفضيل البعض على البعض روي عن أبي حنيفة لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل في الدين وإن كانوا سواء يكره وروى المعلى عن أبي يوسف أنه لا بأس به إذا لم يقصد الإضرار وإلا سوى بينهم وعليه الفتوى".
 
البحر الرائق شرح كنز الدقائق (ج 20 / ص 110)
"يكره تفضيل بعض الأولاد على البعض في الهبة حالة الصحة إلا لزيادة فضل له في الدين وإن وهب ماله كله الواحد جاز قضاء وهو آثم، كذا في المحيط.
 وفي فتاوى وفي الخلاصة المختار التسوية بين الذكر والأنثى في الهبة, ولو كان ولده فاسقا فأراد أن يصرف ماله إلى وجوه الخير ويحرمه عن الميراث, هذا خير من تركه؛ لأن فيه إعانة على المعصية، ولو كان ولده فاسقا لا يعطي له أكثر من قوته".

محمدمصطفیٰ رضا

دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

 18/شعبان/1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد مصطفیٰ رضا بن رضا خان

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب