021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
شوہرکےمارپیٹ کرنے کی صورت میں عدالتی خلع کا حکم         
79951طلاق کے احکامخلع اور اس کے احکام

سوال

میرے شوہر مجھے مارتے پیٹتے ہیں، وہ اور ان کے گھر والے بہت ذہنی اذیت دیتے ہیں، مجھے میرے گھر والوں سے ملنے اور بات کرنےبھی نہیں دیتے،مجھے اور میرے خاندان والوں کو گالیاں دیتے ہیں۔

میں نے ان حالات میں اب خلع لینے کا فیصلہ کیا ہے اور کورٹ میں میرا کیس چل رہا ہے برائے مہربانی آپ مجھے بتائیے کہ کیا کورٹ سے خلع ہو جائے گی؟ برائے مہربانی جلد از جلد شرعی حکم مجھے بتائیں،میں اس مسئلے کی وجہ سے بہت پریشان ہوں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

شریعت میں طلاق کااختیارشوہرکےپاس ہوتاہےاوراگرعورت جدائی اختیارکرناچاہےتوباہمی رضامندی سےخلع کی صورت میں اختیارکرسکتی ہے۔البتہ اگرشوہرنہ توطلاق دیتاہواورنہ ہی خلع پرراضی ہوتوبعض اعذار کی صورت میں شریعت عورت کواختیاردیتی ہےکہ قاضی سےرجوع کرکےنکاح فسخ کروالےلیکن اس کےلئےضروری ہےکہ فسخ نکاح کےشرعی اصولوں کالحاظ کرتےہوئےنکاح کےفسخ ہونےکافیصلہ کیاگیاہو۔لہٰذامذکورہ صورت میں اگرفسخ نکاح کامعتبرعذرموجودہوجیسےنان نفقہ نہ دینا،غیرمعمولی مارپیٹ (یعنی اس طرح کی مار جس سے بدن پر نشان پڑ جائے، زخم آ جائے یا ہڈی وغیرہ ٹوٹ جائے)  اورظلم کرنا وغیرہ توایسےکسی معتبرعذرکی بنیادپرفسخ نکاح کا مقدمہ کیا جائے لیکن ایسی صورت میں یہ ضروری ہوگا کہ عدالت میں دو گواہوں سے اپنے دعوی کو ثابت کردیاجائے۔ اس طرح گواہوں کے ذریعہ اپنا دعوی ثابت کرنے کے بعد اگر قاضی یا عدالت فسخ نکاح کا فیصلہ کر دے تو وہ فیصلہ نافذ ہوگا اور عدت گزارنے کے بعد آپ  دوسری جگہ نکاح کرنےمیں آزاد ہونگی لیکن اگر آپ نے گواہوں کے ذریعہ شوہر کا جرم ثابت نہیں کیا یا وہ جرم اس درجہ کا نہ ہو جس سے عدالت کو نکاح فسخ کرنے کا اختیار حاصل ہوتا ہو تو اس طرح کی عدالتی خلع کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہوتی۔

حوالہ جات
أحكام الأحوال الشخصية في الشريعة الإسلامية (ص: 165)
وأما القاضي فلا يطلق الزوجة بناء على طلبها إلا في خمس حالات: التطليق لعدم الإنفاق، والتطليق للعيب و التطليق للضرر، والتطليق لغيبة الزوج بلا عذر، والتطليق لحبسه.
"الفتاوى الهندية" (4/ 3):
"(وأما حكمها) فاستحقاق الجواب على الخصم بنعم أو لا فإن أقر ثبت المدعى به وإن أنكر يقول القاضي للمدعي: ألك بينة فإن قال: لا، يقول لك يمينه ولو سكت المدعى عليه ولم يجبه بلا أو نعم فالقاضي يجعله منكرا حتى لو أقام المدعي البينة تسمع كذا في محيط السرخسي"۔
الفتاوى الهندية (3/ 363)
 ولو قضى برد نكاح المرأة بعيب عمى أو جنون أو نحو ذلك ينفذ قضاؤه لأن عمر رضي الله تعالى عنه كان يقول برد المرأة الزوج بعيوب خمسة ولو قضى برد المرأة الزوج بواحد من هذه العيوب نفذ لأن هذا مختلف فيه بين أصحابنا رحمهم الله تعالى محمد رحمه الله تعالى يقول بالرد۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وحكم القاضي في الخلع أنه فسخ كالحكم في سائر المجتهدات فإن خواهر زاده رحمه الله تعالى ذكر فيه اختلاف الصحابة رضوان الله تعالى عليهم أجمعين فإذا قضى بكونه فسخا نفذ قضاؤه
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 439)
الخلع (هو) لغة الإزالة، وشرعا كما في البحر (إزالة ملك النكاح المتوقفة على قبولها بلفظ الخلع أو ما في معناه).وأما ركنه فهو كما في البدائع: إذا كان بعوض الإيجاب والقبول لأنه عقد على الطلاق بعوض، فلا تقع الفرقة، ولا يستحق العوض بدون القبول.
بداية المجتهد ونهاية المقتصد (3/ 90) دار الحديث – القاهرة:
المسألة الثالثة: وأما ما يرجع إلى الحال التي يجوز فيها الخلع من التي لا يجوز: فإن الجمهور على أن الخلع جائز مع التراضي إذا لم يكن سبب رضاها بما تعطيه إضراره بها.
تفسير ابن المنذر (2/ 692)
 حدثنا علان، قال: حدثنا أبو صالح، قال: حدثنا معاوية، عن علي، عن ابن عباس: " {واللاتي تخافون نشوزهن فعظوهن واهجروهن في المضاجع} ، قال: فإن رجعت، وإلا ضربها ضربا غير مبرح، ولا يكسر لها عظما، ولا يجرح بها جرحا "
تفسير ابن كثير (2/ 295)
 قال ابن عباس وغير واحد: ضربا غير مبرح. قال الحسن البصري: يعني غير مؤثر. قال الفقهاء: هو ألا يكسر فيها عضوا ولا يؤثر فيها شيئا.
وقال علي بن أبي طلحة عن ابن عباس: يهجرها في المضجع، فإن أقبلت وإلا فقد أذن الله لك أن تضرب ضربا غير مبرح، ولا تكسر لها عظما۔

ولی الحسنین

 دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

۱۸ شعبان ۱۴۴۴ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

ولی الحسنین بن سمیع الحسنین

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب